کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 5
روشن خیال اور وسیع المطالعہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے والوں کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا کہ’’ میرا جی چاہتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لئے جہاں جہاں اسٹال لگائے گئے ہیں ، انہیں آگ لگا دوں ‘‘ قدیم رومی کلچر کی روایات ہوں یا جدید مغرب کا اسلوبِ جنس پرستی، ان کا ہماری مذہبی تعلیمات تو ایک طرف، مشرقی کلچر سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ قدیم روم میں اس تہوار کو’خاوند کے شکار‘ کا دن سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں کسی عورت کے لئے مارکیٹ میں خاوند کی تلاش میں نکل کھڑے ہونا بے حمیتی اور بے غیرتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں عورت کو جو احترام حاصل ہے اس کے پیش نظر اس کی شادی بیاہ کا اہتمام اس کے خاندان کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ہر اعتبار سے ’’یومِ اوباشی‘‘ ہے۔ اس کا اصل مقصود عورت اور مرد کے درمیان ناجائز تعلقات کو فروغ دینا بلکہ تقدس عطا کرنا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو اس خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔ اخبارات میں اس ’یوم‘ کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کو جس طرح ’کوریج‘ دی گئی ہے، اس سے اس کے مزید بڑھنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ ہمارے وہ دانشور جو اسلامی کلچر کے مقابلے میں برصغیر کے قدیم کلچر کے احیا کا پرچار کرتے ہیں ، مغربی تہذیب کے اس حیا سوز تہوار کے خلاف آخر خاموش کیوں ہیں ؟ ہندوستان کی بعض ہندو تنظیموں بشمول کانگرس نے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے لیکن ہمارے ہاں مذہبی تنظیموں اور مقامی کلچر سے ’محبت‘ کرنے والے دانشوروں نے اس طرح کے مظاہرے نہیں کئے۔ ان کی خاموشی کو کیا نیم رضا سمجھا جائے؟… مغرب کی ثقافتی استعماریت کا اس قدر غلبہ ہے کہ ہماری قوم کے اندر بے حسی پیدا ہوتی جارہی ہے !! اخباری اطلاعات کے مطابق اس دفعہ ایران میں بھی ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر اجتماعی شادی کی تقریبات منعقد کی گئی۔ معلوم ہوتا ہے، مغربی ذرائع ابلاغ کی ایران کے خلاف رجعت پسند، قدامت پسند اور بنیاد پرست ہونے کی تکرار نے ایرانی قیادت کے اَعصاب کو بھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے بھی ایسی تقریبات منانے کی اجازت دے کر، معلوم ہوتا ہے اپنے خلاف مذکورہ پراپیگنڈہ کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام میں نہ تو اجتماعی شادیوں پر کوئی پابندی ہے اور نہ ہی میاں بیوی کے درمیان محبت کے اظہار پر کوئی بندش ہے لیکن ا س کے لئے ایک ایسے دن کا انتخاب کرنا جو مغرب کی جنس پرست تہذیب کا علامتی اظہار بن چکا ہے، کسی بھی اعتبار سے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ کیا ہمارے ذرائع اَبلاغ کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ محض خبروں کی سننی خیز اشاعت کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل میں پاکستانی قوم کی راہنمائی کا فریضہ بھی ادا کریں ؟ دعوتِ فکر ہے ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران کے لئے! (محمد عطاء اللہ صدیقی )