کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 40
سے مسجد کا کام بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا اور مسجد کی پہلی بڑی چھت حاجی عبدالرحمن اور حاجی عبید اللہ بردران (گوجرانوالہ) کی کاوش سے پایۂ تکمیل کو پہنچی تھی۔ خطیب ِملت حافظ اسمٰعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں بھائیوں کا خصوصی تعلق تھا۔ اسی جذبہ سے وہ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جزاھم اللَّہ خیراً مدرسۂ اہل حدیث، روپڑ کا آغاز استادمحترم محدث روپڑی جب اپنے والد کے دوست مولانامحمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پر روپڑ تشریف لائے تو وہاں آپ نے مدرسۂ اہل حدیث کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۱۶ء میں دارالحدیث کا افتتاح ہوا۔ نمازِ عصر کے بعد بخاری شریف شروع کی گئی۔ شیخ محمد عمر بن ناصر نجدی عرف عرب صاحب ، مولوی محمد بن عبدالعظیم پسروری، مولوی دین محمد سنانوی اوّلین درسِ بخاری میں شریک ہوئے۔ مولوی نور محمد سکنہ دگری نے نسائی شریف شروع کی۔ اس کے بعد تلامذہ کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور درس تدریس کا یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء تک روپڑ میں رہا۔ ۱۹۳۸ء میں جب آپ نے دیکھا کہ روپڑ کی مسجد اور مدرسہ کا انتظام آپ کے بھتیجوں حافظ محمد اسماعیل اور حافظ عبدالقادر نے سنبھال لیا ہے تو آپ نے مولانا احمد اللہ کی طرف سے امرتسر تشریف لانے کی آرزو کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کر لیا ۔اس طرح امرتسر تشریف لاکر مسجد مبارک کا مکمل انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ مسجد میں مدرسہ دارالحدیث جاری کیا۔ اس طرح امرت سر شہر میں درس و تدریس اور خطابت و امامت کا یہ سلسلہ اگست ۱۹۴۷ء کے فسادات تک جاری رہا۔افسوس یہ مسجد ومدرسہ مع عظیم لائبریری ہندوؤں ، سکھوں نے آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ خطباتِ جمعہ جہاں تک مسجد قدس میں خطباتِ جمعہ کا تعلق ہے ،اس میں حافظ محمد اسماعیل کو اوّلیت حاصل ہوتی۔ دوسرا نمبر حافظ عبدالقادر روپڑی کا تھا ۔ ان کی غیر حاضری میں محدث روپڑی خطبہ دیتے ۔ بعض خا ص موقعوں پر اہم موضوعات پر حافظ محمد حسین برادرِ خورد محدث روپڑی مسلسل خطباتِ جمعہ ارشاد فرماتے۔ جب حافظ محمد اسماعیل کو جمعہ پڑھانا ہوتا تو مسجد میں تل دھرنے کی جگہ نظر نہ آتی بلکہ قرب و جوار کے بازار بالخصوص گلی نمبر ۵ میں صفیں بچھانی پڑتیں ۔ اس زمانہ میں آج کی طرح اتوار کو چھٹی ہوتی۔ تجارت پیشہ حضرات دیگر شہروں و قصبات سے سامان لینے کے لئے جمعہ کے دن لاہور حاضر ہوتے تاکہ مسجد ِقدس میں جمعہ ادا کرسکیں ۔ حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی ( م ۱۹۶۲ء): اللہ اکبر ! خطابت میں حافظ اسماعیل کا کوئی ثانی نہ تھا۔