کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 4
میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھااس لئے ایک دن ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ۱۴/ فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔
کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلنٹائن صاحب کو ’’شہید ِمحبت‘‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے اس خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی کی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرِ آتش کردیا جس پر ’’ویلنٹائن کارڈ‘‘ فروخت ہو رہے تھے۔
آج کل یورپ و امریکہ میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جاتا ہے اور اس کو منانے والے دراصل کون ہیں ؟ اس کی تفصیلات جاننے کے بعد اس دن کو محض ’یومِ محبت‘ سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ تہوارہر اعتبار سے یومِ اوباشی یا یومِ اباحیت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ مغرب میں ’محبت‘ کا تصور ومفہوم یکسر مختلف ہے ۔ جس جذبے کو وہاں ’محبت‘(Love) کا نام دیا جاتا ہے ، وہ در حقیقت بو الہوسی(Lust) ہے۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس ناکی او رجنسی باؤلا پن کی تسکین کی خاطر مرد وزن کے آزادانہ اختلاط کو بھر پور ہوا دینا ہے۔ اُس معاشرے میں عشق او رفسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ مرد وزن کی باہمی رضامندی ہر طرح کی شہوت رانی اور زنا کاری وہاں ’محبت‘(Love) ہی کہلاتی ہے ۔ اسی طرح ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی جانب سے ’محبت‘ (Love) کا لفظ جنسی بے راہ روی کے لئے بطورِ استعارہ استعمال ہوتا ہے۔
ہمارے ایک فاضل دوست جو نہ صرف امریکہ سے بین الاقوامی قانون میں پی۔ایچ۔ ڈی کرکے آئے ہیں بلکہ وہاں ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں ، انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کی روشنی میں اس کا پس منظر بیان کیا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay)اورلڑکیاں پیش پیش تھیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکاء نے اپنے سینوں اور اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب ’محبت‘ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں ۔ جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ اسی دن کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہ دوست آج کل لاہور میں ایک پرائیویٹ لاء کالج کے پرنسپل ہیں ۔ ایک جدید،