کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 39
جامعہ اہلحدیث کا قیام میری دانست کے مطابق استقلالِ پاکستان کے بعد دوبارہ مدرسہ کا مستقلاً قیام جامعہ اہلحدیث لاہور کے نام سے ۱۹۵۴ء میں عمل میں آیا۔ ہمارے استادمحدث روپڑی شیخ الحدیث تھے اور اعلیٰ معقولاتِ آلیہ کی تدریس ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین امرتسری کے ذمہ تھی جبکہ دیگر مدرسین میں مولانا عبدالجبار ملک پوری، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا قادر بخش بہاولپوری، مولانا محمد کنگن پوری (معاون تحفۃ الاحوذی) شامل تھے۔ مولانا عبدالجبار نے اوّلین پہلے محدث روپڑی کے فتوؤں کو مرتب کرنے کا خیال بھی پیش کیا تھا اورہفت روزہ تنظیم اہل حدیث کی جلدوں کو سامنے رکھ کر اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ محنت بھی کی۔ لیکن ان کی مکمل ترتیب کا شرف مولانا محمد صدیق ،سرگودھا کو حاصل ہے جو محدث روپڑی کے لائق ترین شاگرد تھے اور علم میراث کے بڑے ماہر تھے۔ روپڑ سے لے کر آج تک سینکڑوں طلبہ جامعہ اہلحدیث سے فیض یاب ہوچکے ہیں ۔ جن کا شمار ناممکن ہے۔ چند ایک کے اسماءِ گرامی ملاحظہ فرمائیں : شیخ محمد عمر بن ناصر نجدی، شیخ عبداللہ الابیض عرب جامعہ ازہر، مولوی محمد بن عبدالعظیم پسروری، مولانا دین محمد سنانوی، مولوی نور محمد ساکن ڈگری، مولوی عبدالرحمن بن مولوی محمد (محشّی سنن نسائی)، مولوی احمد (بانی مدرسہ دارالحدیث، مدینہ منورہ)، شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی، مولوی عبدالعظیم ٹونکی، مولوی ابوبکر بنگالی، مولوی محمد یوسف بنگالی، مولوی عبدالقیوم بردوانی، مولوی عبدالرحمن افریقی (مہتمم دارالحدیث، مدینہ منورہ)، مولوی محمد، حافظ محمد حسین امرتسری (محدث روپڑی کے دست راست /برادرِ اصغر)،مولوی سید محمد (چونیاں )، مولوی قادر بخش بازید پوری،مولوی شہاب الدین کوٹلوی، حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا محمد صدیق (سرگودھا)، سیدحبیب الرحمن (راولپنڈی)،حافظ عبدالرحمن مدنی، حافظ مقبول احمد، راقم الحروف، مولانا عبدالسلام کیلانی، حافظ عبدالرحمن کمیر پوری(محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ خورد)، مولانا محمد یوسف (راجووال)، حافظ عبدالوحید مدنی، حافظ عبدالماجد(برادر زادگان) ،مولوی محمد یوسف (ڈسکہ)، مولوی محمد شریف، مولوی تاج الدین (بڈھاگورایہ)، مولوی عبدالسلام فتح پوری، سراج الدین ظفر، حافظ محمود احمد، مولوی عطاء اللہ وغیرہم۔ ربّ العزت محدث روپڑی کے لگائے پودے کو تا دیر قائم رکھے۔ آمین! اس طرح محدث روپڑی کے برادرانِ نسبتی بابو عبدالحنّان اور مستری عبدالکریم کے مشوروں