کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 38
سے قابو پایا۔ اتار چڑھاؤ سے حوصلہ نہ ہارا ۔اس سلسلہ میں گجروں کے تشدد کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے محترم استادحافظ محمد حسین (حافظ عبدالرحمن مدنی کے والد) کے بہتے خون کی قربانی نے جبر کا رخ بدل دیا۔ اگرچہ عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اورلمبی جدوجہد کے بعد اندھیری رات چھٹ گئی۔ ربّ العزت نے کامیابی سے سرفراز فرمایا۔ شدید ترین مخالفین زیر ہونے پر مجبور ہوگئے۔نتیجتاً ان میں سے بعض اپنی رہائشی جگہ اربابِ مسجد کو فروخت کرکے چل دئیے حتیٰ کہ پٹھان کا ٹال بھی عبادت گاہ کا حصہ بن گیا۔ وقفہ وقفہ کے بعد ان حضرات نے قطعات ِاراضی خرید کر کے ملحقہ سڑک تک مسجد وسیع کردی۔ اور کچھ وہ تھے جنہوں نے منتظمین مسجد کا حسن خلق اور وسعت ِظرفی دیکھ کر بعد میں مسلک اہلحدیث اختیار کرلیا۔ اس کے باوجود اگر کسی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو اس کو منہ کی کھانا پڑی۔ ایک گجر بڑا زبان دراز تھا، اکثر و بیشتر محدث روپڑی کو سب و شتم کرتا ۔ ایک دفعہ گندی زبان استعمال کرتا ہوا گیلری تک آپہنچاتو طلبہ نے پکڑ کر اس کی خوب گوشمالی کی۔ اس کے نتیجہ میں دوہرا فائدہ ہوا۔ ایک تو پھر اس نے ایسی جرأت نہ کی ، دوسرے بعد ازاں اس نے مسلک اہلحدیث اختیار کرلیا۔ اس طرح دین کا خادم اور محدث رحمۃ اللہ علیہ روپڑی کا معتقد بن گیا۔ اس مرکز عظیم کی تعمیر و ترقی کا سہرا خاندان کے سربراہ ہونے کی بنا پر ہمارے استادمحدث روپڑی کے سر ہے جن کی شب و روز محنت سے مسجد وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ اصحابِ خیر کی طرف سے ان کے برادران او ربرادر زدگان کی وساطت سے مسلسل مالی تعاون جاری رہتا۔ مالی تعاون میں مسجد کے پنجگا نہ نمازی حاجی جمال الدین مرحوم پیش پیش رہتے۔ وہ علماء سے تعلق رکھنا باعث ِافتخار سمجھتے تھے۔دینی اداروں کی مالی امداد کرتے ۔ کئی دفعہ علماء کو اپنے گھر میں کھانا کھلاتے۔ مولانا محمد یحییٰ حافظ آبادی کے والد بابا امیرالدین مرحوم تو ان کے پکے مہمان تھے۔ جب بھی لاہور تشریف لاتے، حاجی صاحب کے ہاں قیام کرتے۔ حافظ عبدالقادر صاحب کا بھی بابا امیرالدین سے گہرا تعلق تھا، ان کی طبیعت بڑی ظریفانہ تھی۔ اکثر باتیں لطیفوں کے انداز میں کرتے۔ حافظ صاحب مرحوم بھی ان کو نقل کرکے مجالس کو گرمایا کرتے تھے۔ دوسرے مناظر اسلام مولانا احمد دین گکھڑوی مرحوم کے واقعات اور لطائف بھی اکثر سناتے رہتے تھے۔ جن کی فہرست طویل ہے۔ بابا امیرالدین جب فوت ہوئے تو حافظ صاحب مرحوم اور راقم الحروف نے حافظ آباد میں ان کی قبر پر جاکر دعا کی تھی۔ قبر پر کھڑے ہوکرکافی دیر تک ان کی زندگی کے واقعات دہراتے رہے۔ رحمهم اللَّہ رحمة واسعة