کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 35
میں حافظ ابن حجر کی کتاب فتح الباری کے کئی ایک مقامات پر اعتراضات کیے ہیں جن کے جوابات حافظ ابن حجر نے کتاب انتقاض الاعتراض کی صورت میں دیئے ہیں ، موصوف کا یہ عظیم شاہکار ہے۔راقم الحرو ف نے ان دونوں کتابوں کو مقابلۃً پڑھا تو مجھے یہ نظر آیا کہ علامہ بدرالدین بہت ساری عبارتیں بلا حوالہ فتح الباری سے ہی نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور جہاں حافظ ابن حجر پر اعتراض مقصود ہو تو وہاں بعض الناس کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔افسوس کہ یہ کام بھی ادھورا رہ گیا جو پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ پھر ہمارے استاذمحدث روپڑی نے قرآن مجید کی تفسیر بھی شروع کی تھی۔ اس میں سورۃ فاتحہ سمیت پہلا پارہ مکمل کیا۔ اس کی تکمیل ۲۳/جنوری ۱۹۶۴ء بروز جمعرات ہوئی۔ اس کام میں ان کے کاتب ان کے بیٹے حافظ محمد جاوید تھے۔حافظ عبدالقادر صاحب گاہے بگاہے مشاہدہ کرکے اظہارِ مسرت فرماتے۔ محدث روپڑی نے عجیب و غریب نکات اس میں سمو دیئے ہیں جو عام متداول تفاسیر میں شاید آسانی سے نہ مل سکیں ۔ طلبہ سے شفقت کا اظہار حافظ عبد القادر روپڑی بحیثیت ِناظم جامعہ مشفق باپ کی طرح طلبہ کے مسائل، حاجات اور ضروریات کا پوری طرح خیال رکھتے۔ لگن ، محنت، دلچسپی سے انہیں حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ۔ اگر کبھی غیر حاضری میں کوئی مسائل جنم لیتے تو ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے۔ شہر میں احباب شوق اور پیار و محبت سے آپ کو دعوتوں پر بکثرت مدعو کرتے ۔ان کی عادت تھی کہ عام طور پر بلا امتیاز چند طلبہ کو بھی ہمراہ لے جاتے۔ صاحب ِخانہ کو بھی علم ہوتا تھا کہ ایک کی بجائے میں نے متعدد احباب کے کھانے کا بندوبست کرنا ہے، جسے وہ اپنے اوپر بوجھ تصور نہیں کرتے تھے بلکہ بخوشی انتظام کرنا سعادت مندی سمجھتے۔ ۱۹۶۳ء میں راقم الحروف اور میرے قریبیساتھی مولانا عبدالسلام کیلانی کو مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ محدث روپڑی اور موصوف کی ہی مساعی ٔجمیلہ سے ملا تھا۔ سعودی عرب کے رئیس القضاۃ شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ اور سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات تھے۔ شیخ ابن باز نے محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کو پیشکش کی تھی کہ آپ مدینہ یونیورسٹی تشریف لے آئیں ۔ لیکن حضرت نے بڑے شکریہ کے ساتھ معذرت کردی۔ شیخ ابن باز نے اپنے حواشی والی فتح الباری بطور ہدیہ پیش کی تو آپ نے فتح الباری کو شروع سے ملاحظہ کرکے فرمایا: فلاں مقام پر بھی حاشیہ ہونا چاہے تھا، اس پر شیخ ابن باز نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ اس وقت کے سعودی فرمان روا شاہ سعود کی ضیافت کا بھی دونوں کو متعدد مرتبہ شرف حاصل ہوا۔