کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 34
شرح مشکوٰۃ المصابیح اور انتقاض الاعتراض کے معاون کی حیثیت سے ہمارے استاذِمحترم محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے جب مشکوٰۃ المصابیح کی شرح لکھنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے محرر موصوف ہی تھے۔ جس کی بڑی دو وجوہ ہیں : اوّل تو بذاتہ ان کو اس کام کا بے حد شوق تھا۔دوسری وجہ یہ کہ ان کا خط نہایت شاندار تھا ﴿تَسُرُّ‌ النّـٰظِر‌ينَ 69 ﴾... سورة البقرة" ربّ ُالعزت نے حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کو اتنا خوش خط بنایا کہ دیکھنے والا داد دیئے بغیر نہ رہ سکتا۔ مغرب اور عشاء کا درمیانی وقت اس شرح کو لکھنے کے لئے مخصوص تھا۔ یہ شرح مظہر النکات کے نام سے موسوم تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شرح میں ایسے عظیم اور عجیب و غریب نکات بیان ہوتے کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتا۔ صاحب ِہدایہ، صاحب ِنورالانو ار، ملا علی قاری اور شیخ رشید رضا مصری وغیرہ پر محدثانہ اور محققانہ انداز میں بعض مقامات پر تعلیقات یا تعاقب کرنا محدث روپڑی کا ہی مقام تھا۔ یہ شرح کتاب الإیمان فی القدرتک مکمل ہوئی تھی۔ میں نے کوشش کرکے اس شرح کا کچھ حصہ نقل کر لیا اور جونقل نہ کرسکاوہ ایک ہنگامہ کی نذر ہوگیا جس کا اب کوئی اتہ پتہ نہیں ۔ جوحصہ میر ے پاس تھا، اس کی ایک کاپی راقم الحروف نے حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردی تھی تاکہ ریکارڈ میں رہے بلکہ میرے ہی مشورہ پر وہ حصہ ہفت روزہ ''تنظیم اہل حدیث'' میں شائع بھی ہوگیا۔ ایک دوسرے موقعہ پر بعض اہل علم نے ہمارے استاد محدث روپڑی کو توجہ دلائی کہ کتاب انتقاض الاعتراض کو شائع کرنا چاہئے۔ موصوف نے جب اس کا قلمی نسخہ دیکھا تواس میں بہت ساری اَغلاط تھیں ۔ اس کتاب کا اصل نسخہ دارالکتب مصریہ میں ہے[1]جس کی نقل رامپور کے کتب خانہ میں بھی ہے،اس سے نسخہ ہذا کو نقل کیا گیا تھا جس کی ایک نقل مولانا محمد اسمٰعیل سلفی گوجرانوالہ کے پاس بھی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس کی ایک نقل مرکزی جمعیت اہلحدیث کی سالانہ سیالکوٹ کانفرنس میں ہمارے استاد عطیہ محمد سالم قاضی ٔمدینہ منورہ کو عطا کی گئی تھی اور جو کاپی ہمارے شیخ محدث روپڑی کے پاس تھی، یہ نسخہ دراصل ہمارے استاد مولانا قادر بخش بہاولپوری رحمہ اللہ کی ملکیت تھا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد ان کی آل اولاد نے اس کو پانچ ہزار روپے میں فروخت کر دیا تھا ۔ حاصل یہ ہے کہ اس نسخہ کی تصحیح میں محدث روپڑی کے معاون حافظ عبدالقادر روپڑی تھے۔ تصحیح اغلاط کے بعداس کتاب کو علیحدہ اپنے قلم سے نقل کرتے تھے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ اس تالیف کا مختصراً پس منظر یہ ہے کہ علامہ بدر الدین عینی حنفی نے عمدۃ القاری شرح بخاری
[1] اس کتا ب کا ایک نسخہ مکتبہ ظاہریہ دمشق میں بھی ہے جس کی نقل راقم الحروف نے جدہ میں شیخ محمد نصیف رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں دیکھی تھی ۔