کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 33
و جامعات کی اِمداد کرانا وہ اپنا دینی فرض سمجھتے تھے" تقبّل اللَّہ جهودہ الطیبة للإسلام والمسلمین"! یکم اگست ۱۹۹۴ء آپ لاہور میں خالق حقیق سے جاملے، اپنے گاؤں میں دفن ہوئے۔ تعلیم کا آغاز شروع سے ہی محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری عمدہ تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا۔ میزان الصرف، میزانِ مُنشعِب، نحو میر، صرف میر، زرا دی،ہدایۃ النحو، اَبواب الصرف، مرقات جیسی درسی کتابیں بڑی محنت سے ہمیں خودپڑھائیں ۔ ابواب الصرف کے ابواب رات کے کھانے کے وقت سنا کرتے اور بعض دفعہ چوک دالگراں سے لے کر میوہسپتال تک پیدل چلتے چلتے سنتے جاتے کیونکہ ماڈل ٹاؤن جانے کے لئے آپ رتن چن کی سرائے سے روزانہ عشاء کے بعد بس پر سوار ہوتے۔ بعض زائرین مشورہ دیتے کہ حضرت چھوٹی کتابوں کے بجائے آپ بڑی کلاسوں کو پڑھایا کریں ، جواباً فرماتے: میں ان کی بنیادیں پختہ کر رہا ہوں تاکہ بلند و بالا عمارت کی استواری میں فرق اور جھول نہ آنے پائے، جب قرآن مجید کا ترجمہ شروع کرایا تو آغاز سورۂ ق سے کیااور فرمایا: میں نے اس لئے یہاں سے شروع کر ایا ہے کہ اپنے استاد امام عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے اسی مقام سے شروع کیاتھا جب سبق پڑھاتے تو تقریباً سارا وقت آنسو بہاتے ہوئے گزرتا۔ اسباق میں مشارکت حافظ عبدالقادر کی عادت تھی کہ اکثر و پیشتر اسباق میں وہ بھی ہمارے ساتھ آ بیٹھتے۔ اسی اثناء میں کئی مسائل پر بحث مباحثہ چل پڑتاجس سے طلبہ کو بہت فائدہ حاصل ہوتا۔ ہمارے استاد محدث روپڑی کی عادت تھی کہ کئی ایک مقامات پر اعتراضات و اشکالات وارد کرکے جوابات طلبہ سے مانگتے۔جواب کی صورت میں کئی دفعہ اشکال در اشکال پیدا کرکے طلبہ کی ذہنی تربیتکرتے تاکہ فہم و رسوخ پیدا ہو۔ اس سلسلہ میں ہماری بہت ساری معاونت حافظ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ روپڑی کیا کرتے تھے جس سے ہمیں بہت فائدہ پہنچتا۔ پھر علیحدہ مذاکرہ کی صورت میں بھی حافظ عبد القادرہمارے ساتھ بیٹھ کر سبق یاد کرانے کی کوشش کرتے تاکہ استاذ کا بیان کردہ کوئی نکتہ فوت نہ ہونے پائے۔ حفظ سے ہماری فراغت چونکہ تازہ تازہ ہوئی تھی، موصو ف کا معمول تھا کہ روزانہ منزل سنتے تاکہ ضبط ہو اور کبھی موقعہ میسر نہ آتا تو کسی دوسرے کے ذمہ لگا دیتے کہ ان کی منزل سنو۔