کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 32
رہتا اور مدعوین علماء اختتامی نشست تک وہاں قیام کرنا دینی فرض سمجھتے تھے۔ اس کا فائدہ عامۃ الناس کو یوں پہنچتا کہ وہ علماء کے عمل سے آگاہی حاصل کرنے کے علاوہ اپنے الجھے ہوئے مسائل کا حل اصحابِ علم سے تلاش کر لیتے۔وائے افسوس آج کے پرفتن دور میں سائل اور مسؤل عنہ دونوں عملی کوتاہی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ...اس کانفرنس میں روزانہ نمازِ فجر کا درسِ قرآنِ مجید ہمارے محترم استاد محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے ذمہ ہوتا تھا۔ دورانِ درس وجدانی تاثیر سے خود بھی روتے اوردوسروں کو بھی رُلاتے۔ محدث روپڑی کے دونوں بھتیجے حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہما اللہ بھی اس عظیم الشان پروگرام میں شریک تھے۔ تینوں نے پٹھانی انداز میں اپنے سروں پر کلے سجائے ہوئے تھے جو دیکھنے والوں کے لئے رعب دار حسین منظر پیش کر رہے تھے۔ان بزرگوں اور سلاطین العلم سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ راقم الحروف اس زمانہ میں اپنے گاؤں میں قرآنِ کریم حفظ کر رہا تھا، خالق کائنات کو منظور تھا کہ تھوڑا ہی عرصہ بعد یہی اربابِ علم میرے مربی اور اتالیق قرار پائے۔ میرے لئے ان کے احسانوں کا بدلہ حیاتِ مستعار میں دینا بڑا مشکل ہے، البتہ ربّ ِکریم کے حضور فریاد کناں ہوں کہ ان کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔ آمین! جامعہ اہل حدیث(مسجد ِقدس)لاہور میں داخلہ :حفظ قرآن سے فراغت کے بعد ہمارے گاؤں کے ایک نیک دل بزرگ اور علماء کے خادم حاجی عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے مزید دینی تعلیم کے حصول کی ترغیب دی۔ والدین سے مشورہ کے بعد مجھے اور میرے عم زاد حافظ مقبول احمد مرحوم کو جو میرے ساتھ ہی حفظ سے فارغ ہوئے تھے، ۱۹۵۴ء میں جامعہ اہلحدیث، لاہور میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ پہلی دفعہ حاجی عبد العزیزصاحب بذاتِ خود ہمارے ساتھ آئے اوربعد میں بھی مسلسل رابطہ رکھا۔ کئی کئی روز تک ہمارے پاسقیام کرتے اور محدث روپڑی کے پہلو میں بیٹھ کر مسائل سے خوب مستفید ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود ان کو مسائل کا عمدہ فہم اور ادراک حاصل تھا۔باہر سے آنے والے مہمانانِ گرامی بسا اوقات یہ سمجھتے کہ حاجی صاحب ہمارے والد ہیں جس پرہمیں صراحت کرنا پڑتی کہ یہ ہمارے والد نہیں بلکہ ہمارے سرپرست ہیں ۔ حاجی عبدا لعزیزمرحوم۱۹۶۹ء کو ہمارے گاؤں سرہالی کلاں ، قصورمیں فوت ہوئے۔ میرے عم زادحافظ مقبول احمد مرحوم یہاں سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ آملے۔حصولِ تعلیم کے بعد شارجہ کو اپنا مستقر بنایا۔ سولہ سال تک متحدہ عرب امارات کے کونہ کونہ میں دعوت ِتوحید و سنت دیتے رہے جہاں ۱۲/ مدارس ان کی زیر نگرانی تھے۔دنیا بھر کے دینی مدارس