کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 29
حافظ عبدالقادر روپڑی مرحوم کی امتیازی خوبیاں اور خدمات بہرحال بات مناظر اسلام مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کی ہورہی تھی، وراثت کا ذکر تو ضمناً آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت حافظ صاحب مرحوم کو خطابت کی دل آویزیوں کے ساتھ، مناظروں کی پرخار وادی کی آبلہ پائی کا ذوق و جنون بھی عطا کیا تھا۔ چنانچہ ایک طرف انہوں نے اپنی مسحور کن خطابت کے ذریعے سے ملک کے چپے چپے میں توحید و سنت کا پیغام پہنچایا، اس راہ میں انہوں نے اپنے آرام و راحت کو دیکھا، نہ راستے کی کٹھنائیوں اور دشواریوں کو، حرص و طمع کو خاطر میں لائے، نہ دشمنوں کی سازشوں اور دسیسہ کاریوں کو۔ ہر قسم کے خوف و طمع سے بالا ہوکر اس توحید کا پرچار کیا جو تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد ِو حید رہا، اتباعِ سنت کے اس ذوق کو عام کیا جو اسلاف صالحین (صحابہ و تابعین) کا مسلک و منہج تھا اور اس طرزِ فکر و طرزِ عمل کو فروغ دیا جو صحابہ کرامؓ کا امتیازی وصف تھا۔ دوسری طرف انہوں نے دلائل کی قوت سے مسلح ہو کر ہر باطل سے ٹکر لی۔ شرک و بدعت سے معرکہ آرائی کی، تقلید کی جکڑ بندیوں کے خلاف جہا دکیا، عقیدۂ ختم نبوت کی پاسبانی کی اور رفض و تشیع کے خلاف مورچہ زن رہے۔ جب بھی اور جہاں بھی اہل بدعت او راہل باطل نے اہل توحید و سنت کو للکارا، حافظ صاحب وہاں پہنچتے رہے اور ان کو دنداں شکن اور منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ جزاہ اللَّہ احسن الجزاء حضرت حافظ صاحب مرحوم کے کردار کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی تھا کہ حق کے معاملے میں ان کے اندر کوئی لچک اور مداہنت نہیں تھی، اپنے اور بیگانے سب ہی ان سے بالعموم ناخوش رہتے تھے کیونکہ وہ زہر ہلاہل کو قند کہنے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے اور شرک و بدعت کے خلاف انہوں نے اتنا کام کیا جتنا ایک ادارے کے بہت سے افراد مل کر بھی نہیں کرپاتے۔ ہفت روزہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ کو زندہ رکھا، جو ان کے عم بزرگوار حضرت محدث روپڑی کی یادگار اور روشنی کا ایک مینار ہے، اس کے ذریعے سے سلفی فکر کا فروغ وذیوع ہو رہا ہے۔اسی طرح حضرت محدث روپڑی کی قائم کردہ درس گاہ’’جامعہ اہلحدیث‘‘ کو انہوں نے قائم رکھا، جو ایک عظیم خدمت ہے۔ خوش قسمتی سے جامعہ کے پاس وسیع و عریض جگہ موجود ہے، خاندان کی روشن روایات اور تاریخ ہے۔ اگر اَخلاف نے اَسلاف کے علم و عمل، درس و افتاء اور زہد و ورع کی ان مثالوں کو سامنے نہ رکھا اور ان کی مسندوں کو پر کرنے کی مخلصانہ کاوش و سعی نہ کی، تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہوگا اور ماضی کی درخشندہ روایات مستقبل کے اندھیروں میں گم ہوجائیں گی۔ ٭٭