کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 27
بھی تھی اور سیف ِبراں کی سی کاٹ بھی، جادو بیانی بھی تھی اور دلائل و براہین کی فراوانی بھی، پیچ و تابِ رازی بھی تھا اور سوز و سازِ رومی بھی، سمندروں کا سا جوش و خروش بھی تھا اور دریا کی سی سبک خرامی بھی، اِخلاص و دردمندی کی مہک بھی تھی اور رزم و بزم کی لٹک کھٹک بھی، عرب کا سوزِدروں بھی تھا اور عجم کا شکوہ بھی۔ جن لوگوں کو مرحوم کی خطابات سننے کا موقع نہیں ملا، وہ شاید راقم کے مذکورہ تبصرے کو مبالغہ آرائی پر محمول کریں ، لیکن جن لوگوں نے مرحوم کے خطابتی معرکے دیکھے ہیں اور ان کی خوش نوائی سے محظوط ہوئے ہیں ، وہ یقینا محسوس کریں گے کہ مرحوم کی خطابت کے جو ہر اور خوبیوں کے بیان کا حق ادا نہیں ہوا۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم او ربے مثال خطیب تھے، آج بھی ان کی یاد، ان کے سننے والوں کو تڑپاتی اور رلاتی ہے۔ افسوس چمنستانِ رسالت کا یہ بلبل خوش نوا، شیر بیشۂ خطابت اور توحید و سنت کا عظیم مبلغ و داعی جوانی میں ہی اللہ کو پیار ہوگیا۔ کولہے کی ہڈی میں کینسر کا آغاز ہوا تو بعض ڈاکٹروں نے انہیں ٹانگ کٹوانے کا مشورہ دیا، لیکن جیتے جی کون ایسے مشوروں کو اہمیت دیتا ہے، نتیجۃً زہر نے پھیل کر پورے جسم کو متاثر کردیا اور علاج ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کا مصداق بن گیا۔ بالآخر ۴/جنوری ۱۹۶۲ء کو خطابت اور علم و عمل کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔ رحمہ اللَّہ رحمۃ واسعۃ ان کی نرینہ اولاد صرف ایک بیٹا حافظ ایوب اسمٰعیل ہیں جو اپنے ماموں حافظ عبد الوحید وغیرہ (حفاظ گروپ) سے منسلک ہیں او روالد کی طرح ممتاز اہل خیر میں سے ہیں ۔ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ تعالیٰ جن کا انتقال ۱۹۹۹ء کے آخر (۶/دسمبر) میں ہوا۔ حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی مرحوم کے برادرِ اصغر تھے۔ یہ بھی خطابت کے خداداد ملکہ سے بہرہ وَر تھے۔ حافظ اسمٰعیل روپڑی مرحوم جب تک زندہ اور صحت مند رہے، حافظ عبدالقادر روپڑی ان کے ساتھ تبلیغ و دعوت کے میدان میں بھی سرگرم رہے اور فرقِ باطلہ کے ساتھ مناظروں میں بھی پیش پیش۔ اپنے برادرِ اکبر کی وفات کے بعد تو وہ بالکل یکہ و تنہا بلکہ خاندان کی آخری شمع بن کر رہ گئے تھے، کیونکہ مذکورہ تینوں بزرگ تو فوت ہوگئے تھے اورحافظ عبدالرحمن مدنی، اس وقت طلب ِعلم میں مصروف تھے۔ اس وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ خاندان کی اس علمی وراثت کے کس حد تک اہل ہوں گے! بہرحال یہ امر اطمینان و مسرت کا باعث ہے کہ حصولِ علم کے بعد انہوں نے علم و تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، دار العلوم کا قیام عمل میں لائے اور ایک معیاری علمی مجلے’’محدث‘‘ کا اجرا کیا اور یوں