کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 26
ہے جس سے آپ کی ہی زیر سرپرستی مجلس التحقیق الاسلامی کے نام سے ایک علمی و تحقیقی ادارہ بھی منسلک ہے اور ایک ماہوار علمی رسالہ ’’محدث‘‘ بھی شائع ہو رہا ہے۔ اسی طرح مولانا مدنی کی اہلیہ بھی خواتین میں بہت وسیع سطح پر تبلیغ و دعوت کا کام کر رہی ہیں اور اس تعلیمی شعبے میں بھی خاصا کام ہو رہا ہے۔ مولانا مدنی کا صاحبزادہ حافظ حسن مدنی بھی دنیوی اور دینی دونوں علوم سے آراستہ ہے اور اب گرامی قدر والد کی بیرونی مصروفیات کی وجہ سے اداروں کی اندرونی ذمہ داریاں انہوں نے سنبھال لی ہیں بارک اللّٰہ فی عِلمہ و عملہ و عمرہ! حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی رحمہ اللہ تعالیٰ حافظ عبداللہ محدث روپڑی سات بھائی تھے، جن میں سے تین بھائی طویل متاع حیات کی وجہ سے علم وعمل میں ممتاز ہوئے۔دو کا تذکرہ تو سطورِ بالا میں گزرا، ان کے ایک تیسرے بھائی حافظ عبدالرحمن کمیر پوری ہیں ۔ جو ابھی بقید ِحیات اور ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں ، ایک مدرسۃ البنات اور مسجد رحمانیہ اہلحدیث جے بلاک سے منسلک ہیں ۔ علاوہ ازیں چند کتابوں کے مصنف بھی ہیں ، جیسے رحمانی نماز، رحمانی مہدی، رحمانی داڑھی وغیرہ۔ تاہم بوجوہ ان کو جماعتی و علمی حلقوں میں زیادہ شہرت نہیں مل سکی۔ اسی طرح محدث روپڑی کے چوتھے بھائی رحیم بخش تھے، ان کے چار بیٹے ہوئے: حافظ محمد، حافظ احمد، حافظ عبدالقادر اور حافظ اسمٰعیل رحمہم اللہ۔ لیکن ان میں سے آخر الذکر دو بھائیوں کو ہی ان کی علمی ودینی خدمات کی وجہ سے شہرت ملی۔ ان میں حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی بڑے تھے۔ لیکن کینسر کے جان لیوا مرض کی وجہ سے جوانی میں ہی فوت ہوگئے۔ انہوں نے بھی تعلیم اپنے عم بزرگوار حضرت محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے ہی حاصل کی تھی۔ انہوں نے کم عمری اور جواں مرگی کے باوجود دعوت و تبلیغ اور وعظ و خطابت کے میدان میں بڑا کام کیا۔ یہ اپنے وقت کے عظیم خطیب، سحر بیان مقرر اور ہردل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مرحوم نے اپنی زوردار خطابت، جادو بیانی اور شیریں مقالی کے ذریعے سے لاکھوں اَفراد کو متاثر کیا۔ اللہ نے لحن داودی سے نوازا تھا، علاوہ ازیں آواز میں ایک طرف سوز تھا تو دوسری طرف خطابت کا طنطنہ اور زور، ان کے ساتھ پنجابی کے اَشعار اور بعض دفعہ لطائف و ظرائف کی آمیزش بھی۔ ان سب چیزوں نے مل کر ان کی خطابت کو ایسی انفرادیت عطا کردی تھی کہ جس نے ایک مرتبہ سنا، بار بار سننے کا متمنی رہا۔ قرآن پڑھتے تو سادہ ہونے کے باوجود اتنا مؤثر لہجہ کہ جی چاہتا کہ وہ پڑھتے رہیں اور ہم سنتے رہیں ۔ تقریباً اسی قسم کی کیفیت ان کی زبان سے پنجابی کے اشعار سنتے وقت ہوتی۔ ان کی خطابت میں گلوں کی سی خوشبو