کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 24
دین کی خدمت کرتے رہے۔ ٭ دین سے وابستگی کی وجہ سے وہ مادیت کے غلبے سے محفوظ اور روحانیت اور زہد و تقویٰ کی صفات سے آراستہ ہوتے۔ ٭ ان کی بیشتر توجہ دنیا کی آسائشیں اور سہولتیں حاصل کرنے کی بجائے، دینی علوم میں رسوخ، کمال اور مہارت حاصل کرنے پر مبذول رہتی۔ ٭ خاندان کی بدولت دینی قیادت اور علمی رہنمائی کا تسلسل قائم رہتا اور مسندیں خالی نہ ہوتیں ۔ ٭ اَخلاف کو اَسلاف کی جانشینی کے ساتھ ایک وسیع حلقہ ٔ اِرادت بھی میسر آجاتا جس کی وجہ سے ایک نئے مسند نشین کو بھی زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور دینی رہنمائی کے طالب، عوام بھی دینی قیادت سے محروم نہ ہوتے۔ اس قسم کے دیگر اور بھی فوائد تھے۔ خاندانوں کی بجائے، اب اَفراد نے وہ جگہ لے لی ہے، اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایک فر دکے اُٹھ جانے سے اس کی علمی مسند اُجڑ جاتی ہے او ردینی قیادت اور علمی رہنمائی کا فقدان ہوجاتا ہے، ا س کا علمی سرمایہ دیمک کی نذر ہوجاتا ہے یا فروخت۔ روپڑی خاندان کے اکابر کا مختصر تذکرہ بہرحال یہ تو ایک ضمنی بات، سخن گسترانہ طور پر آگئی۔ گفتگو ہو رہی تھی ان علمی و دینی خاندانوں کی جنہوں نے ایک عرصے دین اور علم کی خوب خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور ان سب کو بہترین جزا سے نوازے۔ ان میں ایک ممتاز خاندان، روپڑی خاندان ہے۔ جس کے گل سرسبد حافظ عبداللہ محدث روپڑی تھے، رحمہ اللہ تعالیٰ! حافظ عبداللہ محدث روپڑی اس خاندان میں علم وفضل کے اعتبار سے سب سے برگزیدہ شخصیت حضرت محدث روپڑی کی تھی، جو ایک محدث بھی تھے اور عظیم مجتہد اور مفتی بھی، ایک محقق بھی تھے اور مصنف بھی ، صاحب حال بھی تھے اور صاحب ِقال بھی۔ ان کے فتاویٰ، ان کی فقاہت اور مجتہدانہ صلاحیتوں کے غماز او ر ان کی تصانیف ان کی محققانہ ژرف نگاہی کی مظہر ہیں ۔ تقسیم ملک سے قبل روپڑ شہر (مشرقی پنجاب) سے ان کی زیر ادارت ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ نکلتا رہا، جو پاکستان بننے کے بعد اب تک لاہور سے شائع رہا ہے۔ حضرت