کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 23
تذکرۃ المشاہیر حافظ صلاح الدین یوسف روپڑی خاندان اور اسکی علمی و دینی خدمات کا مختصر تذکرہ برصغیر پاک و ہند میں علمی و دینی خاندانوں کی روایت متحدہ ہند جسے بر ِصغیر بھی کہا جاتا ہے اور تقسیم کے بعد برصغیر پاک و ہند کہلاتا ہے، میں بہت سے خاندانوں میں پشت در پشت، علمی و دینی روایات اور خدمات کا ایسا تسلسل رہا ہے جس کی بنا پر وہ پورے خطہ میں نمایاں اور ممتاز مقام کے حامل رہے۔ جیسے سلفی مسلک اور فکر کے حاملین میں غزنوی خاندان، لکھوی خاندان اور مولانا عبدالوہاب دہلوی، امام جماعت غربائِ اہلحدیث کاخاندان اور اس قسم کے کچھ اور خاندان ہیں ، انہی میں سے ایک روپڑی خاندان ہے! ہماری گزشتہ تاریخ میں تو ایسے خاندانوں کا کثرت سے ذکر ملتا ہے، کیونکہ دینی علوم کی تعلیم و تعلّم کا سلسلہ عام تھا۔ اور حاملانِ علومِ نبوت، وارثانِ محراب و منبر اور مسند نشینانِ درس و افتاء کومعاشرے میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اس وجہ سے دینی علوم کے حصول کا شوق بھی کثرت سے تھا اور اس کے کسی بھی شعبے سے وابستگی اور اسی میں زندگی کے کھپا دینے کا جذبہ بھی فراواں تھا بلکہ اسے ایک بڑا اِعزاز اور عظیم شرف سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ واقعۃً یہ ہے بھی! لیکن جب اسلامی ملکوں میں مختلف استعماری قوتوں یا ان کے گماشتوں کا غلبہ و تسلط ہوا، جیسے برصغیر میں انگریز، الجزائر و مراکش وغیرہ میں فرانس اور ترکی وغیرہ میں مصطفی کمال جیسے ملحد اور سیکولرسٹ کا تو صورت حال تبدیل ہوگئی۔ استعماری طاقتوں کی حکمت ِعملی اور مصطفی کمال جیسے اسلام دشمنوں کی پالیسیوں کی وجہ سے دینی علوم کی بجائے دنیوی علوم کی اہمیت بہت بڑھ گئی اور اسی کا حصول شرف و اعزاز کا باعث بن گیا۔ اس صورت ِحال کی تبدیلی نے علمی و دینی خاندانوں کی روایت کو بہت نقصان پہنچایا اور بتدریج یہ روایت دَم توڑتی چلی گئی۔ حالانکہ یہ روایت بہت اچھی تھی ۔ کسی ایک ہی خاندان میں علمی روایات کے تسلسل کے بہت سے فوائد وثمرات تھے مثلاً ٭ خاندان کے اَفراد شوق سے دینی علوم حاصل کرتے اور کسی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوتے بلکہ وہ اسے ایک اعزاز اور شرف سمجھتے۔ ٭ وہ ساری زندگی دعوت و تبلیغ، درس و افتاء اور اسی طرح کے کسی دینی شعبے سے وابستہ رہتے اور