کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 22
جدائی ڈالنا مقصود ہو تو تب بھی اسے حاصل کرنا قطعاً درست نہیں ہوگا، اور اگر جادو کا علم وہم ، فریب او رشعبدہ بازی کی قسم سے ہو تو بھی اسے نہیں سیکھنا چاہئے کیونکہ یہ باطل کا ایک حصہ ہے اور اسکے ذریعے کھیل تماشہ اور لوگوں کا دل بہلانا مقصود ہو تو تب بھی اسے سیکھنا مکروہ ہے‘‘[1] جادو، کرامت اور معجزہ میں فرق امام المازری رحمۃ اللہ علیہ اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جادو کرنے کے لئے جادوگر کو چند اَقوال و اَفعال سرانجام دینا پڑتے ہیں ، جبکہ کرامت میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اتفاقاً واقع ہوجاتی ہے اور رہا معجزہ تو اس میں باقاعدہ چیلنج ہوتا ہے جوکہ کرامت میں نہیں ہوتا۔‘‘[2] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’امام الحرمین نے اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ جادو فاسق و فاجر آدمی کرتا ہے اور کرامت فاسق سے ظاہر نہیں ہوتی، سو جس آدمی سے کوئی خلاف ِعادت کام واقع ہو اس کی حالت کو دیکھنا چاہئے، اگر وہ دین کا پابند او رکبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہو تو اس کے ہاتھوں خلافِ عادت واقع ہونے والا کام کرامت سمجھنا چاہئے، اور اگر وہ ایسا نہیں ہے تو اسے جادو تصور کرنا چاہئے کیونکہ وہ یقینا شیطانوں کی مدد سے وقوع پذیر ہوا ہے۔‘‘[3] تنبیہ:بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی جادوگر نہیں ہوتا اور نہ اسے جادو کے متعلق کچھ معلوم ہوتا ہے، اور وہ بعض کبیرہ گناہوں کاارتکاب بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے ہاتھوں بھی کئی خلافِ عادت کام ہوجاتے ہیں ، اور ایسا شخص یا تو اہل بدعت میں سے ہوتا ہے یا قبروں کے پجاریوں میں سے، سو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ شیطانوں نے اس کی مدد کی ہے تاکہ لوگ اس کی بدعات کی پیروی کریں اور سنت ِنبویہ کو چھوڑ دیں ، اور یہ بات خاص طور پر صوفیا میں پائی جاتی ہے۔ حوالہ جات(۵۵) مزید تفصیل اور جادو کے توڑ وغیرہ کیلئے اس مضمون کا چھٹا حصہ پڑھیں …(۵۶) آکام المرجان، ص۷۸… (۵۷) یہ حدیث اپنے شواہد کے اعتبار سے حسن درجے کی ہے، اسے البزار، احمد اور الحاکم نے روایت کیا ہے نیز دیکھئے، صحیح الجامع، ۵۹۳۹ …(۵۸) المؤطا (۶۲۸)، کتاب العقول باب ماجاء فی الغیلۃ والسحر…(۵۹) امام قرطبی نے شافعی کا یہی مسلک بیان کیا ہے جبکہ ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ جادوگر کو محض جادو کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے، ہاں اگر وہ جادو کرکے کسی کو قتل کرتا ہے تو اسے قصاصاً قتل کردیا جائے گا…(۶۰) تفسیر القرطبی، ج۲ ص۴۸…(۶۱) تفسیر القرطبی، ج۲ ص۴۸ … (۶۲) البخاری، ج۶ ص۲۵۷۔ الفتح…(۶۳) تفسیر ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۴…(۶۴) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۳۶… (۶۵) المغنی، ج۱۰ ص۱۱۵…(۶۶) فتح الباری ،ج۱۰ ص۲۳۶…(۶۷) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۳۶ (۶۸) المغنی ،ج۱۰ ص۱۱۵ …(۶۹) المغنی، ج۱۰ ص۱۱۴…(۷۰) اصد۔ ابوداؤد، حافظابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، الفتح، ج۱۰ ص۲۳۳…(۷۱) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۵…(۷۲) المغنی، ج۱۰ ص۱۰۶…(۷۳) ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۵ … (۷۴) تفسیر ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۵…(۷۵) روائع البیان، ج۱ ص۸۵…(۷۶) فتح الباری،ج۱۰ ص۲۲۳ … (۷۷) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۳ (باقی آئندہ)
[1] روائع البیان، ج۱ ص۸۵ [2] فتح الباری،ج۱۰ ص۲۲۳ [3] فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۳