کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 20
امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تائید کی ہے، نیز کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید بن اعصم کو قتل نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا، سو ساحر اہل کتاب واجب القتل نہیں ، لیکن اگر جادو کے عمل سے کوئی آدمی قتل ہوجاتا ہے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کردیاجائے گا اور اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اہل کتاب کو شرک کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا حالانکہ شرک جادو سے بڑا جرم ہے تو جادو کے جرم پر بھی ساحر اہل کتاب واجب القتل نہیں ہوگا۔[1] کیا جادو کا علاج جادو سے کیا جاسکتا ہے؟ (1) امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :’’جادو کا توڑ اگر قرآن سے کیا جائے یا ذکر اذکار سے یا ایسے کلام سے کیا جائے جس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوحرج نہیں ہے اور اگر جادو کا علاج جادو سے کیا جائے تو اس بارے میں احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے تو قف کیاہے۔‘‘[2] (2) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ((النَّشْرَة من عمَل الشیطان)) [3] ’’جادو کا توڑ شیطانی عمل ہے‘‘…اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ جادو کا علاج اگر خیر کی نیت سے ہوتا تو درست ہوگا ورنہ درست نہیں ہوگا۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ جادو کے علاج کی دو قسمیں ہیں : (1) جائز علاج جو کہ قرآنِ مجید اور مسنون اذکار اور دعاؤں سے ہوتا ہے۔ (2) ناجائز علاج جو کہ شیطانوں کا تقرب حاصل کرکے اور انہیں مدد کے لئے پکار کرکے جادو ہی کے ذریعے ہوتاہے، او ریہی علاج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث سے مراد ہے، اور ایسا علاج کس طرح سے درست ہوسکتا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگروں کے پاس جانے سے روکا ہے اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنے کو کفر قرار دیا ہے!! امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جادو کے علاج کی یہی دو قسمیں ذکر کی ہیں او ران میں سے پہلی کو جائز اور دوسری کو ناجائز قرار دیا ہے۔ کیا جادو کا علم سیکھنا درست ہے؟ (1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر‌﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جادو کا علم سیکھنا کفر ہے۔‘‘[4] (2) ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ:’’جادو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے، اور اس میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے،
[1] المغنی ،ج۱۰ ص۱۱۵ [2] المغنی، ج۱۰ ص۱۱۴ [3] اصد۔ ابوداؤد، حافظابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، الفتح، ج۱۰ ص۲۳۳… [4] فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۵