کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 16
اس کے بعد وہ اپنے کفریہ وِرد پڑھنا شروع کردیتا ہے، جبکہ بچے کو اپنی ہتھیلی پر دیکھنا ہوتا ہے حالانکہ اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا ہے، اچانک بچہ محسوس کرتا ہے کہ روشنی پھیلی گئی ہے اور اس کی ہتھیلی میں کچھ شکلیں حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ، چنانچہ جادوگر بچے سے پوچھتا ہے: تم کیا دیکھ رہے ہو؟ بچہ جواباً کہتا ہے:میں اپنے سامنے ایک آدمی کی شکل دیکھ رہا ہوں ۔ جادوگر بچے سے کہتا ہے کہ جس آدمی کی شکل تم دیکھ رہے ہو اسے کہو کہ جادوگر تم سے یہ یہ مطالبہ کر رہا ہے، سو اس طرح وہ شکلیں جادوگر کے احکامات کے مطابق حرکت میں آجاتی ہیں ۔ یہ طریقہ عموماً گم شدہ چیزوں کی تلاش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں جو کفر وشرک پایا جاتا ہے، وہ بالکل واضح ہے۔ آٹھواں طریقہ جادوگر مریض کے کپڑوں میں سے کوئی ایک کپڑا مثلاً رومال، پگڑی، قمیص وغیرہ جس سے مریض کے پسینے کی بو آرہی ہو، منگوا لیتا ہے، پھر اس کپڑے کے ایک کونے کو گرہ لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی چار انگلیوں کے برابر کپڑا مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے، پھر اونچی آواز کے ساتھ سورۂ کوثر یا کوئی اور چھوٹی سورت پڑھتا ہے، اس کے بعد آہستہ آواز میں اپنے شرکیہ وِرد پڑھتا ہے اور پھر جنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے: ’’اگر اس مریض کے مرض کا سبب جن ہیں تو کپڑے کو چھوٹا کردو، اور اگر اسے نظر لگ گئی ہے تو اسے لمبا کردو، اور اگر اسے کوئی دوسری بیماری ہے تو اس کپڑے کو اتنا رہنے دو جتنا اس وقت ہے‘‘ پھر وہ اس چار انگلیوں کے برابر کپڑے کو دوبارہ ناپتا ہے، اگر وہ چار انگلیوں سے بڑا ہوچکا ہو تو مریض سے کہتا ہے کہ تمہیں نظر لگ گئی ہے، اور اگر وہ کپڑا چار انگلیوں سے چھوٹا ہوچکا ہو تو مریض سے کہتا ہے کہ تم آسیب زدہ ہو، اور اگر وہ کپڑا چار انگلیوں کے برابر ہی ہو تو اسے کہتا ہے کہ تمہیں کوئی بیماری ہے لہٰذا تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ اس طریقہ کار میں تین باتیں قابل ملاحظہ ہیں : (1) مریض کو دھوکہ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا علاج قرآن کے ذریعے ہو رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاج کا اصل راز ان شرکیہ وِردوں میں ہوتا ہے جنہیں جادوگرآہستہ آواز میں پڑھتا ہے۔ (2) اس طریقے میں جنوں کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے جو کہ شرک ہے۔ (3) جن اکثر و بیشتر جھوٹ بولتے ہیں اور خود جادوگر کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جن سچا ہے یا جھوٹا، سو اس کی بات پر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ او رہم نے خود کئی جادوگروں کا تجربہ کیاہے، ان میں سچے کم اور جھوٹے زیادہ تھے، اور کئی مریض ہمارے پاس آکر بتاتے ہیں کہ جادوگر کے کہنے کے