کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 14
ذبح کیا تاکہ جن اس کا پانی گہرائی تک نہ پہنچا دیں ، پھر اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا، یہ بات امام ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچی تو وہ فرمانے لگے: ’’خبردار! ذبح شدہ جاندار حرام ہے اور خلیفہ ٔ وقت نے لوگوں کو حرام کھلایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے جسے جنوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو‘‘[1] اور صحیح مسلم میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے لئے کوئی جانور ذبح کیا‘‘ (2) شرکیہ تعویذات جنہیں جادوگر جنوں کو حاضر کرنے کے لئے پڑھتاہے، ان میں واضح طور پر شرک موجود ہوتا ہے اور اس کی وضاحت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کئی کتابوں میں کی ہے۔ تیسرا طریقہ یہ طریقہ جادوگروں میں انتہائی گھٹیا طریقے کے طور پر مشہور ہے اور اس طریقے کو اپنانے والے جادوگر کی خدمت کے لئے اور اس کے اَحکامات پر عمل کرنے کے لئے شیطانوں کا بہت بڑا گروہ اس کے پاس موجود رہتا ہے، کیونکہ ایسا جادوگر کفر والحاد کے اعتبار سے بہت بڑا جادوگر تصور کیا جاتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔یہ طریقہ مختصر طور پر کچھ یوں ہے: جادوگر… اس پر اللہ کی ڈھیروں لعنتیں ہوں ۔ قرآن مجید کو جوتا بنا کر اپنے قدموں میں پہن لیتا ہے، پھر بیت الخلاء میں جاکر کفریہ طلسموں کوپڑھتا ہے، پھر باہر آکر اپنے کمرے میں بیٹھ جاتا ہے اور جنوں کو اَحکامات جاری کرتا ہے، چنانچہ جن بہت جلد اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کے اَحکامات نافذ کرتے ہیں ، کیونکہ وہ مندرجہ بالا طریقے پر عمل کرکے کافر اور شیطانوں کا بھائی بن چکا ہوتا ہے ،سو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ یاد رہے کہ ایسا جادوگر مندرجہ بالا کفریہ کام کے علاوہ دوسرے بڑے بڑے گناہوں کا اِرتکاب بھی کرتاہے ، مثلاً محرم عورتوں سے زِنا کرنا، لواطت کرنا اور دین اسلام کو گالیاں بکنا وغیرہ اور یہ سب اس لئے کرتا ہے کہ تاکہ شیطان اس پر راضی ہوجائیں ۔ چوتھا طریقہ ملعون جادوگر قرآنِ مجید کی کوئی سورت حیض کے خون سے یا کسی اور ناپاک چیز سے لکھتا ہے پھر شرکیہ طلسم پڑھتا ہے اور اس طرح جنوں کو اپنی فرمانبرداری کے لئے حاضر کر لیتا ہے اور جو چاہتا ہے اس کا انہیں حکم دے دیتا ہے۔ اس طریقے میں بھی کفر صریح موجود ہے کیونکہ قرآنِ مجید کی ایک آیت کے ساتھ استہزاء کرنا
[1] آکام المرجان، ص۷۸…