کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 9
کو معیوب سمجھنا اور یہاں تک نفرت کا اظہار کرنا کہ انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنے کی روایات ملتی ہیں ۔تیسری طرف یتیموں کے اموال کو ناحق اپنے تصرف میں لانے کا رجحان بھی دکھائی دیتا ہے۔چوتھی طرف عورتوں کے ساتھ نازیبا طرز عمل کئی غیر اخلاقی صورتیں اختیار کرگیاتھا۔ حتیٰ کہ ان کی خریدوفروخت تک کو جائز تصور کرلیاگیاتھا۔قانون وراثت میں ترکہ صرف ان مردوں میں تقسیم ہوتاتھا جو مکمل جوان اور میدان جنگ میں لڑنے کے قابل ہوتے تھے عورتیں بچے اور بوڑھے میراث سے کلیتاً محروم رہتےتھے۔غلاموں بیواوں اور یتیموں کے لئے د اد رسی کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔وراثت کے اعتبار سے یہ وہ حالات تھےجس میں شریعت اسلامیہ نے ایک ہمہ گیراور آفاقی ضابطہ وراثت عطا کیا۔ اسلام کا قانون وراثت تدریجاً نافذ ہوا: یاد رہے کہ اسلامی وراثت کے یہ اصول بھی اسلام کے بہت سے دوسرے ضوابط اور قوانین کی طرح ایک اصول تدریج سے گزرے ہیں اور ان میں بھی ناسخ منسوخ کی ایک جزوی کیفیت موجود ہے۔ابتدائے اسلام میں وصیت کا اصول کارفرمارہا۔ہر شخص اپنی زندگی میں وصیت کے ذریعے اپنے وارثوں کے حصے اور حقوق متعین کردیتاتھا۔لیکن اس میں اس کی انفرادی پسند وناپسند شامل ہوتی تھی۔۔۔قرآن مجیدمیں وراثت کا یہ ابتدائی ضابطہ یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿180﴾ فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿181﴾فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿182﴾...البقرة " تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اورثابت ہے (180) اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناه بدلنے والے پر ہی ہوگا، واقعی اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانب داری یا گناه کی وصیت کردینے سے ڈرے پس وه ان میں آپس میں اصلاح کرادے تو اس پر گناه نہیں ، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے" سورہ بقرہ کے اس ابتدائی قاعدہ وصیت کے بعد سورہ نساء میں ایک مستقل ضابطہ وراثت پیش کیا گیا۔جس کے مطابق مورث کو پابند کیاگیا کہ وہ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہیں کرسکتا جب کہ باقی ماندہ ترکے کے لیے مستقل اصول اور ضوابط مقرر کردیے گئے۔یوں عہد جاہلیت کی زیادتیوں کا خاتمہ