کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 8
مقالات پروفیسر عبدالجبار شاکر ( اسلام کا قانون وراثت : ارتقاء اور فلسفہ قانون وراثت۔۔۔اسلام سے قبل: انسانی تمدن کے احیاء بقا اور استحکام کاتعلق طریق وراثت کے ساتھ وابستہ ہے۔دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام میں انتقال جائیداد یا حصول جائیداد کے مختلف طریقے رہے ہیں۔جن میں وصیت کے ذریعے وراثت کا حصول ایک قدیم ترین طرز عمل ہے۔وصیت کے ان طریقہ ہائے کار میں عموماً یہ فرض کر لیا گیاتھا کہ جائیداد کا مالک خود بہتر سمجھتاہے۔کہ اس کے مرنے کے بعد اسے کس طور پر اور کن کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے۔یوں اس طریق کار سے ظلم اور بے انصافی کی روایت مدتوں مختلف زمانوں میں جاری وساری ہیں ۔اسلامی قانون سے قبل اہل روما کے قانون وراثت کو بہت شہرت حاصل ہے۔اور آج بھی بہت سے یورپی ممالک کے قوانین کا مآخذ یہی اہل روما کا قانون ہے۔ قانون روما میں بھی بنیادی طور پر وصیت کے طریق کار کو اپنایا گیا لیکن اگر کوئی فرد بغیر وصیت کئے دنیا سے ر خصت ہوجاتا تو ایسی صورت حالات میں اس کاترکہ جدی اشخاص کو منتقل ہوتاتھا۔ان میں حقیقی اولاد کو فوقیت ہوتی تھی۔اور ان کی عدم موجودگی میں یہ حصہ بھائیوں اور چچاؤں میں بھی منتقل ہوجاتاتھا۔مگر اس قانون روما کے تحت وراثت میں آزاد شدہ اور تنبیت میں دیئے ہوئے بیتے وراثت سے محروم ہوجاتے تھے۔وہ بیٹیاں جن کے نکاح ہوجاتے اور شوہر کے زیر اختیار زندگیاں بسر کرتیں ،انہیں بھی والد کی جائیداد میں سے کوئی حصہ وصول نہیں ہوتا تھا۔متوفی کے ورثاء میں سے خواتین کو حصہ نہیں ملتاتھا ماسوائے حقیقی بہنوں کے جنھیں ایک درجے میں وراثت میں شریک تصور کیا جاتا تھا۔اہل روما کے اس قانون وراثت میں بہت سی اصلاحات ہوئیں ۔بالخصوص پرٹیر اور جنٹین نےوراثت کے قدیم ر ومی اصولوں میں بہت سی تبدیلیاں کیں ،وگرنہ اس سے قبل قانون روما میں وراثت کا حق محدود تھا۔جس کے باعث اصول نصفت(Equity) کا اطلاق کیا جانے لگا۔ بعثت اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں وراثت کا جو طرز عمل جاری تھا،اس میں بھی کئی طرح کی ناانصافیوں کو رواج دیا گیا تھا۔ایک طرف تو انسانی تذلیل کے کئی مناظر دیکھائی دیتے ہیں جن میں انسان کو غلام بنانےاور ان پر تشدد کرنے کے واقعات ہیں ،دوسری طرف لڑکیوں کی پیدائش
[1] ڈائریکٹر پبلک لائبریریز ، پنجاب