کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 64
اور عالمی شہرت یافتہ اداروں سے وابستہ رہے ہیں ۔انہیں اس سلسلے میں دنیا کے اہم ممالک بالخصوص اسلامی ملکوں کے دوروں کے متواتر مواقع ملے۔ان کی زندگی کا اچھا خاصہ وقت عرب ممالک میں گزرا ہے۔درج ذیل اہم اداروں سے ان کی وابستگی سے ان کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے: 1۔ناظم ندوۃ العلماء لکھنو 2۔رکن مجلس تاسیسی رابطہ عالم اسلامی ،مکہ معظمہ 3۔رکن مجلس عاملہ موتمر عالم اسلامی ،بیروت 4۔رکن مجلس انتظامی ،اسلامک سنٹر،جنیوا 5۔سابق وزیٹنگ(Visiting) پروفسیر مدینہ یونیورسٹی ودمشق یونیورسٹی 6۔رکن عربی اکادمی،دمشق 7۔صدر مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ 8۔رکن مجلس انتظامی ومجلس عاملہ دارالمصنفین اعظم گڑھ 9۔رکن مجلس شوریٰ جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ 10۔رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیو بند عالم عرب کی نامور شخصیات سے مولانا علی میاں کے قریبی مراسم تھے۔ان میں مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی(یاسر عرفات کے دادا) اخوان المسلمون کے ڈاکٹر رمضان سعید اور سید قطب شہید(مصر) علامہ بھجۃالبطیار(شام) ،حجاز کے مشہور رئیس ،عالم اور فخر جدہ شیخ محمد نصیف ،ڈاکٹر تقی الدین الہلالی مراکشی،مشہور عالم اکیڈمی المجمع العلمی(دمشق) کے صدر صاحب طرز ادیب علامہ کرد علی،مشہور عرب شاعر اُستاذ خلیل مردم بک(شام) مشہور محقق وادیب علا مہ عبدالقادر ڈاکٹر طہٰ حسین(مصر) ڈاکٹراحمد امین)(شام)ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی اور سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز وغیرہ ہم سے ان کے تعلقات اور ملاقاتوں کاذکر ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی رحلت بلاشبہ ملت اسلامیہ کے لئے نقصان عظیم ہے۔جس کی تلافی کابظاہر زمانہ قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔مندرجہ بالا سطور میں ان کی شخصیت کے محض چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان کی علمی وادبی خدمات اور ملت اسلامیہ کے لئے ان کے فکری کارناموں کا جامع تذکرہ ابھی تشنہ تحریر ہے۔ان کے 70 سال پر محیط علمی سفر کے بیان کے لئے باقاعدہ ایک کتاب کی ضرورت ہے۔