کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 62
وجود میں آئی۔اس تہذیب وثقافت میں شکوہ بھی ہے اور تواضح بھی حلاوت بھی ہے اور مروت بھی ،گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی صلابت بھی ہے اور رقت بھی ،استقامت بھی ہے اور رواداری بھی۔اس کےقلمرو میں علوم شریعت وحکمت بھی ہیں اور ادب وشاعری بھی ،فقرودرویشی بھی ہے اور نفاست وذوق بھی۔اس کی دلچسپی کے میدان قلعے بھی ہیں اور کتب خانے بھی ،مدرسے بھی ہیں اور خانقاہیں بھی ،تحقیق وتصنیف کے حلقے بھی ہیں اور مشاعرے بھی۔اس میں ثقاہت بھی ہے اور ظرافت بھی۔سخت جانی بھی ہے اور سبک روحی بھی۔اس کے اظہار خیال واظہار کمال کاذریعہ عربی بھی ہے۔اور فارسی بھی ،اردو بھی ہے اور ہندی بھی،یہ وہ تہذیب وثقافت ہے جس نے فاتحین اسلام کے داخلہ ہند کے بعد سے اپنا کام کرنا شروع کیا،پھر شاہ جہاں وعالمگیر کے عہد میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔یہ وہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت ہے جو نہ خالص ہندوستانی ہے ،نہ خالص ایرانی ،نہ عربی ہے نہ عجمی بلکہ ان سب کے محاسن کے مجموعہ اور تہذیب وتمدن کے میدان میں ایک نیا تجربہ یہی تہذیب وثقافت تھی"(پرانے چراغ،حصہ دوم ص32) شاید ہی کسی اور مصنف نے چند سطور میں ہندوستان میں اسلامی ثقافت کے اجزائے ترکیبی اور اس کے ارتقاء کی تفصیلات کو اس قدر جامعیت سے اتنے مختصر الفاظ میں بیان کیا ہو۔ مولانا میاں وسیع المطالعہ اور کثیر التصانیف عالم تھے۔ان کی اردو عربی زبان میں تصانیف کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن کے تعارف کے لئے مستقل مقالہ درکار ہے۔ان کی مایہ ناز اور شاہکار تصنیفات حسب ذیل ہیں : عربی تصانیف: 1۔ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ربانية لا رهبانية المسلمون وقضية المسلمون رجال فكر ودعوة في الاسلام مختارات من ادب العرب رسالة التوحيد(مولانا اسماعیل شہید کی تقویۃ الایمان کا ترجمہ) الصراع بين الفكرة الاسلامية والفكرة الغربية في الاقطار الاسلامية روائع اقبال