کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 61
پڑھ لی تھیں جب وہ ابھی صرف پندرہ سال کے تھے ۔1929ء میں مولانا علی میاں نے دارالعلوم ندوۃ کے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن کے پاس جانا شروع کیا نا سے انہوں نے صحیح بخاری صحیح مسلم ابو داود اور ترمذی اور تفسیر بیضادی پڑھیں ۔اپنے استاد مولانا حیدر حسن کے متعلق لکھتے ہیں ۔ "مولانا کو وہی طالب علم زیادہ عزیز تھا جو آزادی سے بحث کرے اور مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کرے اسی لیے بعض اوقات متعصب حنفی ہونے کے باوجود ان اہل حدیث طلباء پر زیادہ شفقت اور التفات ہوتا جو تیاری کر کے آتے اور بات سمجھنے کی کو شش کرتے۔ ان کے علاوہ شیخ تقی الدین الہلالی مراکشی بھی ان کے اساتذہ میں سے تھے۔شیخ موصوف دارلعلوم ندوۃ میں ادب عربی کے استاذ اعلیٰ تھےبعد میں اپنے وطن مراکش چلے گئے۔ایک اور استاذ جن کا ذکر مولانا علی میاں نے بے حد تفصیل سے کیا ہے وہ ان کے ماموں مولانا سید طلحہ حسنی تھے بقول ان کے ۔ "وہ صرف و نحو کے امام تھے عربی کے ایسے ادیب و عالم تھے کہ عہد جاہلی و اسلامی کے مسلم الثبوت شعراء کے کئی ہزار اشعار ان کو حفظ اور نوک زبان تھے عربی کے علوم بلاغت (معانی دبیان ) پر ان کی وسیع اور گہری نظر تھی اصول فقہ و علم قدیم کتابوں پرجو آئمہ فن کے قلم سے نکلی ہیں ان کی مدر سانہ واستادانہ نگاہ تھی۔ مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع اور متنوع تھا عقیدہ و مسلک سے لیکر تاریخ اسلام نظام تعلیم و تربیت اسلام میں دین و دنیا کی جامعیت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قدیم و جدید کے صالح و نافع اجزا ء کے خوشگوار امتزاج کی ضرورت پر مستحکم عقیدہ دین وسیاست کی تفریق کو زوال امت کا اصل سبب قرار دینے پورا و ثوق اصلاح نصاب علوم اسلامیہ اور علوم عصریہ کے عمیق و تحقیقی مطالعہ کے ذریعہ علماء کو ان کا کھویا ہوا مقام دلانے کی کو شش اتحاد ملت اسلامیہ مسلمانوں کے عظیم ماضی کے اوراق گم گشتہ کی نشاندہی اسلاف کے اثر انگیز تذکرے اور تاریخ علم و ادب وغیرہ جیسی شاہرات پر ان کا اشہب قلم ہمیشہ رواں دواں رہا۔ مگر اپنے تناسب طبع اور مخصوص خاندانی و تعلیمی پس منظر کی بنا پر تاریخ تہذیب و کلچران کا پسندیدہ اور خاص موضوع رہا ۔مغربی تہذیب کی ہولناکیوں کے مناظر دکھا کر اسلامی ثقافت کی برتری کے نقوش کو واضح کر دکھانا بھی ان کی تصنیفات کا مرکز ی موضوع ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مختلف عناصر کے امتزاج سے اسلامی ثقافت کس طرح پروان چڑھی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ "ہندوستان کے خمیر کی آشنا پرستی اور وفا شعاری رنگ وآہنگ سے اثر پذیری،ترکوں کی مہم جوئی وسپہ گری ،افغانوں کی شجاعت وشرافت ،مغلوں کے ذوق جمالی وقوت ارادی،عجم کے حسن طبیعت اور عرب کے سوز دروں سب سے مل کر ایک خاص تہذیب اور ایک خاص ثقافت