کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 60
عبد العلی اس کے ناظم مقررہوئے ۔مولانا علی میاں نے دارالعلوم ندوۃالعلماء میں تعلیم حاصل کی 1934ء میں اس ادارے میں تدریس کے منصب پر فائز ہوئے ۔بعد ازاں طویل عرصہ تک اس کی نطامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔مسلمانوں کے اہم تعلیمی اور تہذیبی مرکز کی طویل نظامت ان کے خاندان کے لیے اعزاز سے کم نہیں ہے ندوۃ کی فیکلٹی میں علامہ شبلی نعمانی مولاناسید سلیمان ندوی مولانا مسعود عالم ندوی مولانا حیدر حسن ٹونکوی اور زمانے کے دیگر نامور علماء و فضلاء شامل رہے ہیں سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو نکھا رنے میں ندوۃ کا کردار بے حداہم ہے۔ سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اور خوش نصیبی یہ تھی کہ ان کے اساتذہ کا پایہ نہایت بلند ہے وہ خود بھی تحدیث نعمت کےطور پر ذکر کرتے ہیں ۔ "ناچیز راقم کو خدا کے فضل سے بڑے کامل الفن اساتذہ کی خدمت میں زانوےادب تہہکرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے میرا بال بال رواں رواں ان کے احسانات کارہین منت ہے۔ ان کے عربی زبان کے اساتذہ میں شیخ خلیل عرب نام گرامی قابل ذکر ہے۔ شیخ خلیل بن محمد عرب لکھنؤیونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کے استاد تھے وہ نسلاً یمنی تھے ان کے دادا شیک حسین بن محسن 1869ء میں ہندوستان آئے اور ریاست بھوپال میں قیام پذیر ہوئے ۔ان کی آمد کا پس منظر مولانا علی میاں یوں بیان کرتے ہیں ۔ "یہ ہندوستان کے مشہور وعظیم عالم و مصنف امیر الملک والا جاہ نواب سید صدیق حسن خان کازمانہ تھا وہ خود بڑے صاحب نظر عالم اور جوہر شناس رئیس تھےحجاز کے سفر میں شیخ حسین ابن محسن سے ملاقات ہوئی ۔وہ ان کا تبحر علمی دیکھ کر ان کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ خود ان سے سند بھی لی اور ان کو بھوپال تشریف لانے کی دعوت بھی دی "(پرانے چراغ حصہ دوم ص210) شیخ حسین فن حدیث کے امام اور قدیم محدثین کی زندہ یادگار اور بولتی چالتی تصویر تھے سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد سید عبدالحی ان کے شاگرد تھے مولانا علی میاں نے اپنے استاذشیخ خلیل عرب پر مفصل مضمون تحریر کیا ہے جسے پڑھ کر انداز ہ ہوتا ہے کہ شیخ خلیل عرب سے انہوں نے عربی زبان و ادب کی کلاسیکل کتابیں پڑھیں ۔عربی زبان کی پہلی کتاب المطالعۃ العربیۃ سے لیکر مدارج القراۃ کلیلہ دمنۃ کتاب المغازی ابو العلا معری کا دیوان سقط الزند مقامات حریری نہج البلاغہ امام عبد القاہر جرجانی کی دلائل اعجاز قصائد بحتری متنبی اور حماسۃ وغیرہ کتب انہوں نےابتدائی چند برسوں میں پڑھیں ۔اس زمانے کے مسلمانوں کے علمی گھرانوں میں تعلیم کے معیار کا اندازہ مذکورہ بالا فہرست کتب سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے مولانا علی میاں نے یہ ساری کتابیں اس وقت