کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 6
ہے۔قرآن کریم سے:﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْبَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾...البقرة یعنی تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت طلاق دینے والے لے لیے حلال نہیں ،تاآنکہ وہ اس کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرے۔پھر اگر وہ طلاق دے دے تو یہ ایک دوسرے سے رجوع کرلیں تو گناہ نہیں ۔(البقرۃ:230) یہاں قرآن مجید شرعی طلاق کے آداب وحدود بیان کررہاہے۔اور جب شرعی طریقے پر وہ تین ہوجائیں تو پھر شرعی آداب سے عورت کسی مرد سے نکاح کرلے اور کسی ناچاقی کی وجہ سے شرعی طریقہ پر طلاق ہوجائے یا وہ عورت بیوہ ہوجائے تو وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائےگی۔حلال ہوجانے کے لفظ کو "حلالہ" کی اصطلاح قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص قرآن مجید میں اشتراک کے لفظ سے اشتراکیت ثابت کرنے لگے۔حلالہ ایک مخصوص اصطلاح ہے۔یعنی حلالہ مروجہ کامطلب یہ کہ ایک رات کے لیے کسی قابل اعتمادشخص کو جنسی فعل(بدکاری) پر تیار کیاجاتاہے۔اور اسے نکاح کا نام دیا جاتا ہے۔اور پھر اسے طلاق دینے پر مجبور کرتے ہیں ۔تاکہ وہ دوباور پہلے خاوند سے نکاح کرلے۔یہ حلالہ مروجہ قرآن میں کہاں ہے؟جس کی بابت دیدہ دلیری سے د عویٰ کیا جارہاہے کہ وہ تو قرآن سے ثابت ہے۔ اگر یہ حلالہ قرآن سے ثابت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر لعنت کیوں فرماتے؟جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےدونوں پر لعنت فرمائی ہے۔اور حلالہ نکالنے والے شخص کو مانگا ہوا سانڈ بتلایا ہے۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت میں اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص حلالہ کرے گا اس کو رجم کی سزادوں گا۔کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے شخص کو رجم دینے کا اعلان کیاتھا جو قرآن سے ثابت فعل کا ارتکاب کرنے والا تھا؟ فقہی جمود میں مبتلا ان علماءحضرات سے پوچھا جاسکتاہے کہ مذکورہ آیت قرآنی کا علم کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں تھا کہ انہوں نے حلالہ کولعنتی فعل اور قابل رجم جرم گردانا؟ چند سال قبل سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد شفیع محمدی نے حلالہ کی حرمت کا فیصلہ دیاتھا اور اس کا ارتکاب کرنے والے کے لئے سخت سزا کی سفارش بھی کی تھی۔جسٹس صاحب کا مذکورہ فیصلہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے عین مطابق ہے۔علماء کو اس میں مین میکھ نکال کر اسے سبوتاژ کرنے کی مذموم سعی نہیں کرنی چاہیے۔محض گھر آباد کرنے کی نیت سے زناکاری اور بے غیرتی کا جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔نہ اسے ثواب ہی گردانا جاسکتاہے۔علماء کو اس جہالت کا جس کی وجہ سے گھراجڑتے ہیں ۔کوئی معقول حل سوچنا چاہیے اور لوگوں کو سختی سے سمجھاناچاہیے کہ بیک و قت تین طلاقیں دینا حرام اور سخت ممنوع ہے۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں صرف ایک طلاق دی جائے۔غصے میں بھی ایک ہی طلاق دی جائے۔کاغذات اور تحریر میں بھی ایک ہی طلاق لکھی جائے تاکہ صلح اور رجوع کی گنجائش موجود رہے۔نہ کہ لوگوں کی جہالت اور غلط رویے کی وجہ سے حرام فعل کو جائز بلکہ ثواب کا باعث قرار دے لیا جائے۔یہ تو شریعت سازی ہے جس کا کوئی حق علماء کو حاصل نہیں ہے!!(جواب ازحافظ صلاح الدین یوسف) سوال:جولوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہی کرتے ،اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن پاک میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴿44﴾...المائدة ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿45﴾...المائدة