کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 59
اس علمی خانوادے کو عربی زبان وادب سے خاص شغف تھا خاندان کے ماحول نے کم سن علی میاں میں عربی زبان سے شیفتگی واشتغال کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔اپنے خاندان کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں ۔ "ہمارا گھرانہ علماء و مصنفین کا گھرانہ ہے والد صاحب اپنے زمانے کے عظیم مصنفوں میں تھے خاندانی و موروثی اثرات بڑے طاقتور ہوتے ہیں وہ نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں اور بچوں اور بچیوں سب میں ان کے کم وبیش اثرات پائے جاتے ہیں کچھ یہ آبائی اثر کچھ والد صاحب کا ذوق و انہماک ۔۔۔ہمارے سارے گھر پر یہ کتابی ذوق سایہ فگن تھا۔ مولانا علی میاں کے گھرانہ کی خواتین بھی اس علمی ذوق میں پیچھے نہیں تھیں ۔ان کی ہمشیرہ محترمہ امت النسیم صاحبہ نے نامور محدث امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب ریاض الصالحین کو زاد سفر کےنام سے اردو زبان میں منتقل کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اس پر مقدمہ لکھا۔ انہوں نے اپنے اس مقدمہ میں تحریر فرمایا ہے۔ (پرانے چراغ حصہ دوم 354) "ہم کواس اظہار میں بڑی خوشی ہے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب ریاض الصالحین کا ترجمہ اسی گھرانے نے کیا ہے جس نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت اور بدعت کے ازالہ کا کا م ایک صدی پہلے شروع کر رکھا ہے اور جن کے انوار و برکات ملک بھر میں ہر جگہ نمایاں ہیں ۔ سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے خاندان کے متعلق بیان کرتے ہیں ۔ "ہمارا گھرانہ عقائد و مسلک میں حجرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا سختی سے پیرو تھا اور ان کے اثرات رچ بس گئے تھے کہ بے اصل اور غیر مستند چیزیں جن سے عقائد میں خلل پڑتا ہو گھر میں بار نہیں پاتی تھیں "(حوالہ ایضاص243) سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ اور تحریک دیوبند کے ساتھ ندوۃ العلماء کی تحریک خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔مولانا محمد علی مونگیری ندوۃ کے بانی تھے مگر اس کے اصل روح رواں اور ساختہ پر داختہ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ تھے اس کا مقصد ۔۔۔"ایسے علماء کا پیدا کرنا تھا جو قدیم و جدید اور علم و عمل کے جامع ہوں اور جو اسلام کی ابدی شریعت کے اصول و مسائل اور بدلتے ہوئے زمانہ کے نئےنئے تقاضوں کے درمیان تطبیق پیدا کر سکیں اور جو دین اور دنیا کی دوری کو دور کر سکیں زندگی کے نئے نئے مسائل کا دینی حل تلاش کریں اور اسلام کی دعوت اور اس کے ابدی حقائق کو نئے ذہنوں کے لیے عام فہم و مانوس بنا سکیں ۔ مولانا علی میاں کے گھرانے کو ندوۃ العلماء سے قریبی تعلق رہا ہے ان کے والد حکیم سید عبد الحی اس کے ناظم رہے ۔1923ء میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بھائی حکیم ڈاکٹر سید