کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 58
و تحقیق کے متعلق ان کے محیرا العقول کارناموں کودیکھ کر قرون اولیٰ کے آئمہ فن حدیث (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ) کی علمی کاوشوں کا نقشہ ذہن میں ابھر نے لگتا ہے صحیح اور ضعیف احادیث کی تخریج اکثر مشہورکتب پر ان کی تعلیقات و حواشی اور تحقیقات نے دور جدید میں علم حدیث کی ایک نئی تحریک کو جنم دیا ہے وہ بلا شبہ محی السنۃ قامع البدعۃ اور شیخ ابن باز کے بقول بیسویں صدی کے مجدد تھے ان کے عظیم علمی کارنامو ں کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ سر کاری سر پرستی کے بغیر سر انجام دیا بلکہ وہ بعض صورتوں میں اہل اقتدار کے عتاب کا شکار بھی رہے سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ زبان و ادب اور تاریخ و ثقافت کے دور حاضر میں اسلامی دنیا کے عظیم ترین شاہسوار تھے انہوں نے اسلامی تاریخ سے ملت اسلامیہ کو اس ولولہ کے ساتھ روشناس کرایا کہ مسلمانوں کا اپنی تاریخ پر کھویا ہوا اعتماد ایک دفعہ پھر بحال ہوگیا وہ ایک عجمی تھے مگر ان کی عربی زبان میں تصانیف نے عالم عرب کے صاحبان علم وانشاء سے وہ خراج عقیدت وصول کیا کہ زمانہ قریب میں کو ئی غیر عرب مصنف اس اعزاز سے شرف یاب نہیں ہوا ۔وہ اس اعتبار سے منفرد مرتبہ کے حامل ہیں کہ ادباء و فضلا ء ہی نہیں بلکہ عالم عرب کے سلاطین و شاہان ذی وقار نے بھی ان پر گلہائے عقیدت نچھا ور کئے وہ غالباً اسلامی تاریخ میں واحد غیر عرب ہیں کہ جن کے شکوہ علم ادبی جاہت اور علمی کارناموں سے متاثر ہو کر خادم حرمین شریفین نے انہیں کعبۃ اللہ کے کلید بردار ہونے کا اعزاز عطا کیا ۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا میاں کی فکر انگیز تحریروں اور ان کے خوبصورت اسلوب نگارش کو اردو اور عربی زبان بولنے والے اسلامی ممالک میں وہ قدر و منزلت اور مذیرائی ملی ہے کہ کو ئی دوسرا ہندی الاصل مصنف و مفکر ان کا مقابل و ہمسر نہیں ہے۔ سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ المعروف مولانا علی میاں تحریک مجاہدین کے مؤسس سید احمد شہید کے نامور جہادی و علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے ۔1914ء میں جب انہوں نے اس جہان فانی میں آنکھ کھولی تو اس وقت ان کا خاندان پورے برصغیر پاک و ہند میں ممتاز و محترم سمجھا جاتا تھا ان کے والد گرامی حکیم سید عبد الحی صاحب اپنے وقت کے معروف عالم دین اور مؤرخ تھے مولانا عبد الحی صاحب کی آٹھ جلدوں میں مبسوط نزھۃالخواطر کو آج بھی دینی وعلمی حلقوں میں حوالے کی کتاب کے طور پر بلند مقام حاصل ہے۔ اس میں انہوں نے ساڑھے چار ہزار سے زائد شخصیات کے حالات قلمبند کئے ہیں اس کے علاوہ گل رعنا اور معارف العوارف فی انواع العلوم والمعارف (عربی) جیسی ان کی تصانیف برصغیر پاک وہند کے علمی ذخیر ے میں امتیازی شان کی حامل ہیں مولانا علی میاں اس اعتبار سے خوش نصیب تھے کہ بے حد کم سنی میں انہیں علمی صحبتوں اور مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔