کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 57
ادب وثقافت کی روشن شمع کی وفات محمد عطاء اللہ صدیقی سید ابوالحسن علی ندوی کی رحلت.... عالم اسلام کا روشن چراغ جو بجھ گیا!! 1999ء جسے بیسویں صدی کا آخری سال قرار دیا جا رہا ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے عام الحزن ثابت ہوا کہ اسے یکے بعد دیگر متعدد نابغہ ہائے عصر اور اساطین علم و ادب کے داغ ہائے مفارقت سہنے پڑے ۔ان میں تین گراں قدر ہستیاں تو ایسی ہیں کہ جن کی رحلت نے ملت اسلامیہ کو علمی اعتبار سے فی الواقع یتیم اور ویران کر کے رکھ دیا ہے ۔جون 99ء میں سعودی عری کے مفتی اعظم سماحۃالشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز کے سانحہ ارتحال سے ملت اسلامیہ ایک عظیم عالم دین اور مدبر سے محروم ہوگئی2/اکتوبر کو علمائے سلف کی یادگار فخر روزگار علامہ محمد ناصر الدین البانی کے انتقال کی صاعقہ اثر خبر نے پورے عالم اسلام کو محزون و ملول کردیا ۔بیسویں صدی کے خاتمہ میں ابھی چند ساعات ہی باقی تھیں کہ مفکر اسلام فخر عجم و عرب سید ابو الحسن علی ندوی اس جہان آب وگل اور اس کے طوق وسلاسل کی قید سے آزاد ہو کران باکمالوں سے جاملے جن کے اس جہان فانی سے سفر کا سلسلہ ابتدائے افراینش سے جاری ہے۔ گو یا اکیسویں صدی کے لمحہ اول کے لیے جب پورے عالم میں استقبالی جشن چراغاں برپاتھا ملت اسلامیہ کا چمنتان علم و ادب اپنے منور چراغوں کے بجھ جانے پر سوگواری میں ڈوبا ہواتھا !! مذکورۃ الصدر تینوں شخصیات وہ آفتاب ہائے علم و ادب اور بحر ذخار تھیں کہ جن کی موجودگی-میں قومیں بجا طور پر اپنی خوش بختی پر ناز کرتی ہیں ۔شیخ ابن باز سعودی عرب کے ترین علمی منصب تحقیق وافتاء کے رئیس عام وہ ممتاز عالم تھے جن کی فقہی آراء اور قرآن و سنت کی تشریحات و تعبیرات کوپورے عالم اسلام میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے دور حاضر کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس قدر سہل اور مؤثر حل پیش کیا کرتے تھے کہ علماء و فضلا انہیں امام ملت تسلیم کرتے تھے ان کی تبحر علمی اور بالغ نظری کا ایک زمانہ معترف تھا ان علمی آراء کے سامنے حکمران وقت بھی سر تسلیم خم کرتے تھے قرآن و سنت کے علوم کی ترویج واشاعت کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کی ملت اسلامیہ تادیر زیر بار احسان رہے گی۔ علامہ ناصر الدین البانی بیسویں صدی کے سب سے بڑے محدث ہیں علم حدیث کے فروغ