کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 37
مشاہدہ کرنے والا آدمی اس بات کو بھی عقلا بعید نہیں سمجھتا کہ جادوگر کو چندایسی چیزوں کا علم ہو جو موت کا سبب بنتی ہوں یا اسے ایسا کلام معلوم ہوجو تباہ کن ثابت ہو یامیاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہو۔[1] 4۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : "اورصحیح یہ ہے کہ جادو حقیقتاً موجود ہے اور اسی موقف کو اکثروبیشتر علماء نے اختیار کیا ہے اور کتاب وسنت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔[2] 5۔امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "اور جادوفی الواقع موجود ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں ،وہ جو کہ ماردیتاہے ،اور وہ جو کہ بیمار کردیتا ہے،اور وہ جو کہ خاوند کو بیوی کےقریب جانے سے روک دیتاہے۔اور وہ جو کہ میاں بیوی کے د رمیان جدائی ڈال دیتا ہے اور یہ بات تو لوگوں کے ہاں بہت مشہور ہے کہ جادو کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی سے جماع کرنے پر قادر نہیں ہوتا،پھر جب اس سے جادو کا اثر ختم ہوجاتاہے تو وہ جماع کرنے کے قابل ہوجاتاہے اور یہ بات تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے جس کا انکارکرنا ناممکن ہوتاہے۔اور اس سلسلے میں جادوگروں کے قصے اتنی کثرت سے موجود ہیں کہ ان سب کوجھوٹا قراردینا ناممکن ہے۔[3]۔۔۔مزید کہتے ہیں : "جادو جھاڑ پھونک اور گرہیں لگانے کا نام ہے ،جس سے دل وجان پر اثر ہوتا ہے ،بیماری کی شکل میں ،یا موت کی شکل میں ،یامیاں بیوی کے درمیان جدائی کی شکل میں فرمان الٰہی ہے: ﴿ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ﴾ "وہ لوگ ان دونوں فرشتوں سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والا علم سیکھنے لگے" اور فرمایا:﴿ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴾ یعنی وہ جادو گر عورتیں جو اپنے جادو پر گرہیں لگاتی اور ان پر پھونک مارتی ہیں ،ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں ،سو جادو کی اگر کچھ حقیقت نہ ہوتی تو اس سے پناہ طلب کرنے کا حکم نہ دیا جاتا"[4] 6۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "فرمان الٰہی﴿ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴾ اور حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات کے دلائل ہیں کہ جادو اثرانداز ہوتا ہے اور واقعتاً موجود ہے"[5] 7۔امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "علماء نے حقیقت جادو اور اس کی اقسام میں اختلاف کیاہے ،ان میں سے اکثریہ کہتے ہیں کہ جادو کبھی جادو کئے گئے آدمی کی موت کا سبب بنتا ہے اور کبھی اس کی بیماری کا"[6] (حصہ سوم) جادو کی اقسام
[1] زادالمسلم ص225ج4 [2] فتح الباری ص222ج10 [3] المغنی ج10ص102 [4] فتح المجید ص314 [5] بدائع الفوائد ج2ص227 [6] شرح عقیدہ طحاویہ ص505