کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 35
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ جادو بذات خود اثر انداز ہوتا ہے،سوہر مومن پر یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ جادو یا کوئی اور چیز سوائے اللہ کی مرضی کے کچھ نہیں کرسکتی۔فرمان الٰہی ہے:﴿ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ﴾ "اور وہ(جادوگر) کسی کو جادو کے ذریعے نقصان نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس کے کہ اللہ کا حکم ہو" 6۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص علم غیب کادعویٰ کرنے والے کے پاس یاجادو گر کے پاس یا نجوی کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا اور پھر اس نے جو کچھ کہا اس نے اس کی تصدیق کردی،تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دین سے کفر کیا"[1] علماء کے اقوال: 1۔امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : "کچھ لوگوں نے جادو کا انکار کیاہے اور اس کی حقیقت کو باطل قراردیا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ جادو ثابت اور حقیقتاً موجود ہے،اسکے ثبوت پرعرب،فارس،ہند اور کچھ روم کی اکثر قوموں کااتفاق ہے۔اور یہی قومیں صفحہ ہستی پر بسنے والے لوگوں میں افضل ہیں اور انہیں میں علم وحکمت زیادہ ہے اور فرمان الٰہی ہے﴿يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾ "وہ لوگوں کو جادوسکھاتے ہیں " اور اس سے پناہ طلب کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے:﴿ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَد﴾ اور جادو کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ثابت ہیں جن کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو دیکھی ہوئی چیزوں اور بدیہی باتوں کو نہ مانتا ہو۔۔۔ سو جادو کی نفی کرنا جہالت اور نفی کرنے والے پر تردید کرنا بے ہودگی اور فضول کام ہے۔[2] 2۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے: "اہل السنہ کا مذہب یہ ہے کہ جادو ثابت اور فی الواقع موجودہے ،جبکہ معتزلہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ابو اسحاق الاسترابادی کا مذہب یہ ہے کہ جادو حقیقتاً موجود نہیں ہے اور یہ محض ایک ملمع سازی،حقیقت پر پردہ پوشی اور وہم وگمان ہے اور شعبدہ بازی کی قسموں میں سے ایک ہے،اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ:﴿يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ﴾ یعنی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایسے خیال آیا کہ جادو گروں کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں اور یوں نہیں فرمایا کہ وہ فی الواقع دوڑ رہے تھے،اور اسی طرح سے فرمایا ﴿سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ﴾ یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔ پھر امام قرطبی کہتے ہیں :۔ "ان آیات میں معتزلہ وغیرہ کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ خود تخیل یعنی کسی کو وہم گمان میں مبتلا کردینا بھی جادو کا ایک حصہ ہے۔اور اس کے علاوہ دیگر عقلی ونقلی دلائل سے بھی جادو کا فی الواقع موجود ہونا ثابت ہے ،ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
[1] حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ الترغیب (ج4ص53)میں کہتے ہیں اس حدیث کو بزار اور ابو یعلی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اچھی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [2] شرح السنہ ج12ص188