کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 33
اعتراض اور اس کا جواب: مازری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :مبتدعین نے اس حدیث کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ حدیث منصب نبوت کی توہین اور اس میں شکوک وشبہات پیدا کردیتی ہے اور اسے درست ماننے سے شریعت پر اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا ہو کہ جبرئیل علیہ السلام آئے حالانکہ وہ نہ آئے ہوں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی گئی ہے حالانکہ وحی نہ کی گئی ہو!! پھر کہتے ہیں کہ مبتدعین کا یہ کہنابالکل غلط ہے۔کیونکہ معجزات نبوت اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ وحی کے سلسلے میں معصوم اور سچے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت جب معجزات جیسے قوی دلائل سے ثابت شدہ حقیقت ہے تو اس کے خلاف جو بات ہوگی وہ بے جا تصور کی جائے گی۔[1] ابو الجکنی الیوسفی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے: "جہاں تک جادو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر ہونے کاتعلق ہے،تو اس سے منصب نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا،کیونکہ دنیا میں انبیاء علیہ السلام پر بیماری آسکتی ہے جو آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کاباعث بنتی ہے۔لہذا جادو کی بیماری کی وجہ سے اگر آپ کو خیال ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی امور میں سے کوئی کام کرلیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کیاہوتا تھا،اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا ہے اور وہ فلاں جگہ پر ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں سے نکال کر دفن بھی کروادیا تھا اس سبب سے رسالت میں کوئی نقص نہیں آتا،کیونکہ یہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہی تھی،جس سے آ پ کی عقل متاثر نہیں ہوئی۔صرف اتنی بات تھی کہ آپ کا خیال ہوتا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی کسی بیوی کے قریب گئے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیاہوتا تھاسو اتنااثر بیماری کی حالت میں کسی بھی انسان پر ہوسکتاہے"۔۔۔پھر کہتے ہیں : "اور حیرت اس شخص پر ہوتی ہے کہ جو جادو کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیمار ہونے کو رسالت میں ایک عیب تصور کرتا ہے حالانکہ قرآن مجید میں فرعون کےجادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کاجوقصہ بیان کیا گیا ہے،اس میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کو بھی ان کے جادوکی وجہ سے یہ خیال ہونے لگا تھا کہ ان کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں ۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدم رکھا اور نہ ڈرنے کی تلقین کی"[2] مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق کسی نے یہ نہیں کہا کہ جادو گروں کے جادو کی وجہ سے انہیں جو خیال آرہا تھا۔ وہ ان کے منصب نبوت کے لئے عیب تھا(سوا گروہ عیب نہیں تھا تو جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا وہ بھی عیب نہیں ہوسکتا کیونکہ) اس طرح کی بیماری انبیاء علیہ السلام پر آسکتی ہے جس سے ان کی ایمانی قوت میں اضافہ ہوتاہے،اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دشمنوں پر فتح نصیب کرتاہے۔خلاف عادت معجزات عطا کرتا ہے۔جادوگروں اور کافروں کو ذلیل ورسوا کرتا ہے اور بہترین انجام متقی لوگوں کے لیے خاص کردیتاہے۔"[3] 2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"سات
[1] زاد المسلم ج4ص221 [2] سورۃ طہٰ کی آیات 66تا69 [3] زاد المسلم ج4ص22