کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 31
جادو گر جہاں جائے کامیاب نہیں ہوتا" ﴿ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (117)فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿118﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿119﴾وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿120﴾ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿121﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ﴾ [1] "اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی بھیجی توبھی اپنا عصا ڈال دے،سوعصاکاڈالنا تھاکہ اس ے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کونگلنا شروع کیا،پس حق ظاہر ہوگیا۔اور انہوں نے جو کچھ بنایاتھا سب جاتا رہا،پس وہ لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکرپھرے اور وہ جو جادوگر تھے سجدہ میں گر گئے،کہنے لگے:ہم ایمان لائے رب العالمین پر جو موسیٰ علیہ السلام وہارون کا بھی رب ہے" ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿1﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿2﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿3﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿4﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿5﴾[2] "آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے،اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا سا اندھیرا پھیل جائے ،اور گرہ(لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے بھی،اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب ہو حسد کرے" اما قرطی رحمۃ اللہ علیہ ﴿ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : [3] " وہ جادوگر عورتیں جو دھاگوں کی گرہیں بنا کر ان پر دم کرتی اور پھونکتی ہیں " اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :"مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ،عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،حسن رحمۃ اللہ علیہ ،قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،اورضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ سے جادوگر عورتیں مراد لی ہیں ۔[4] اور یہی بات ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ طبری نے بھی کہی ہے،اور قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مفسرین نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔[5] جادو اور جادوگروں کے متعلق دیگر بہت سی آیات موجود ومشہور ہیں اوراسلام کی تھوڑی بہت معلومات رکھنے والا شخص بھی ان سے واقف ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چند دلائل: 1۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے( جسے لبید بن اعصم کہا جاتا تھا)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا،جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم متاثر ہوئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال ہوتاہے کہ آپ نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہوتا تھا،یہ معاملہ ایسے چلتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن(یا ایک رات) میرے پاس تھے اور بار بار اللہ سے دعا کررہے تھے،اس کے بعد مجھ سے فرمانے لگے:"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی ہے،میرے پاس دو آدمی آئے تھے،جن میں سے ایک میرے سر اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور ایک نے دوسرے سے پوچھا:
[1] سورۃ الاعراف 117تا122 [2] سورۃ الفلق [3] تفسیرقرطبی ج20ص257 [4] تفسیر ابن کثیرج4ص573 [5] تفسیر قاسمی ج10ص302