کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 3
پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کرتاہے 23دسمبر1999ء(14/رمضان المبارک 1420ھ)بروز جمعرات کو ایک ایسا ہی یاد گار فیصلہ صادر کیا گیا ۔اس روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپلیٹ بنچ نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ تجارتی اور صرفی ہر طرح کے لین دین پر معاشرےمیں جاری سود کی تمام اشکال قرآن و سنت سے متصادم ہونے کے باوصف حرام اور ممنوع ہیں ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا کہ حکومتی سطح پر حاصل کردہ ملکی اور بین الاقوامی سودی قرضے بھی اسی ذیل میں آتے ہیں لہٰذا اس کا چلن بھی اسلامی تعلیمات کی روسے ناجائز ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ آٹھ سودی قوانین کو مارچ 2000ء تک تبدیل کر کے قرآن وسنت کے سانچے میں ڈھال لے جبکہ بقایا تمام سودی قوانین کو ختم یا تبدیل کرنے کے لیے 30جون 2001ء تک کی مہلت دے دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے صادر ہوتے ہی بہت سے نئےمباحث اور مسائل سامنے آنے لگے ہیں ۔قبل ازیں وفاقی شرعی عدالت نے مارک اَپ کی پاکستان میں رائج اشکال کوسود پر مبنی قراردے کر ممنوع ٹھہرایا تھا ۔سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی اگر چہ وفاقی شرعی عدالت سے اتفاق کیا ہے لیکن مارک اَپ کے نظام سے سود کا عنصر خارج کر کے اسے اپنی تجویز کردہ شکل میں زیر عمل لانے کو جا ئز قرار دیا ہے( جس پر تفصیلی تبصرہ کا حق ہم محفوظ رکھتے ہیں ) عدالت عظمیٰ نے بیرون ملک سے لیے جانے والے سودی قرضوں کو بھی اسلامی قانون سے متصادم قرار دے دیا ہے اس طرح اس فیصلے کی سب سے بڑی زدان بین الاقوامی قرضوں پر پڑی ہے جو حکومت اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کرتی ہے۔ سود پر مبنی بین الاقوامی قرضوں کے غیر اسلامی قرار پاجانے کے بعد حکومتی ماہرین معیشت کو ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ کوئی ایسا حل تلاش کرنے میں مصروف ہیں جو عدالتی معیارپر بھی پورا اترے اور عالمی مالیاتی اداروں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔دوسری طرف سود کے حرام قرار پاجانے کے فوراً بعد وزارت خزانہ نے پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے نام پر ان قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں نئے معاہدات کئے ہیں ۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ ان نئے مالیاتی معاہدات میں بھی سودی بنیاد کو قائم رکھا گیا ہے اس کے علاوہ حکومت پاکستانی بنکوں اور دیگر مالیاتی کمپنیوں کی جانب سے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر صدق دل سے لبیک کہنے کی قابل اعتماد شہادتیں ابھی تک کسی ٹھوس صورت میں سامنے نہیں آئیں ۔اس سہل نگاری کے سبب عوامی سطح پر دو طرح کے شکوک دلوں میں پرورش پارہے ہیں ایک تویہ کہ پاکستانی کمپنیوں کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں اس فیصلے پر عملدرآمد کا کوئی