کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 25
سے مدد لی جاتی ہے۔" الازھری کہتے ہیں "سحر در اصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کا نامہے۔"[1] اور ابن منظور اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "ساحر(جادو) جب باطل کو حق بناکر پیش کرتاہے اور کسی چیز کو اسی حقیقت سے ہٹ کر سامنے لاتا ہے۔تو گویا وہ اسے دینی حقیقت سے پھیر دیتاہے۔"[2] ابن عائشہ سے مروی ہے کہ "عربوں نے جادو کانام سحر اس لیے رکھا ہے کہ یہ تندرستی کو بیماری میں بدل دیتاہے۔"[3] ابن فارس سحر کے متعلق کہتے ہیں :"ایک قوم کا خیال یہ ہے کہ سحر باطل کو حق کی شکل میں پیش کرنا ہے۔"[4] المعجم الوسیط میں سحر کی تعریف یوں ہے:"سحر" وہ ہوتاہے جس کی بنیاد لطیف اور اتنہائی باریک ہو۔"[5] صاحب محیط المحیط کہتے ہیں :"سحر یہ ہے کہ کسی چیز کو بہت خوبصورت بنا کرپیش کیا جائے تاکہ لوگ اس سے حیران ہوکررہ جائیں ۔[6] سحر۔۔۔شریعت کی اصطلاح میں : شرعی اصطلاح میں سحر کی تعریف کچھ اس طرح سے کی گئی ہے:امام فخر الدین الرازی کہتے ہیں :شریعت کے عرف میں سحر(جادو) ہر اس کام کے ساتھ مخصوص ہے جس کس سبب مخفی ہو ۔اسے اس کی اصل حقیقت سے ہٹ کر پیش کیا جائے اور دھوکہ دہی اس میں نمایاں ہو۔"[7] امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں :"جادو" ایسی گرہوں اور ایسے دم درود اور الفاظ کا نام ہے۔ جنھیں بولا یا لکھاجائے یا یہ کہ جادوگر ایسا عمل کرے جس سے اس شخص کا بدن یادل یا عقل متاثر ہوجائے جس پر جادو کرنا مقصود ہو۔" اور جادو واقعتاً اثر رکھتاہے،چنانچہ جادو سے کوئی شخص قتل بھی ہوسکتا ہے،بیمار بھی ہوسکتا ہے۔اور اپنی بیوی کے قرب سے عاجز بھی آسکتاہے بلکہ جادو خاوند بیوی کے درمیان جدائی بھی ڈال سکتاہے۔اور ایک دوسرے کے دل میں نفرت بھی پیدا کرسکتاہے اور محبت بھی۔[8] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :"جادو" ارواح خبیثہ کے اثر ونفوذ سے مرکب ہوتا ہے جس سے بشری طبائع متاثر ہوجاتی ہیں۔[9] غرض سحر جادو گر اورشیطان کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نام ہے جس کی بناء پر
[1] بخاری 2276۔مسلم 2201ترمذی 2063ابن ماجہ 2156۔ [2] تہذیب اللغۃج4ص290۔ [3] لسان العربج4ص348۔ [4] ایضاً [5] مقاییس اللغۃص507اورالمصباح ص267۔ [6] المعجم الوسیط ج1ص419۔ [7] محیط المحیط ص399۔ [8] المصباح المیزص268۔ [9] المغنی ج10ص104۔