کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 21
سے پانی اور طاعون کاطوفان مراد لیاہے۔[1] پانی ان کے گھروں میں داخل ہوگیا اور بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلق تک پہنچ گیا یہ کیفیت سات دنوں تک رہی۔۔۔جراد سے ٹڈیاں مراد ہیں ۔جو ان کی کھیتیوں اور پھلوں کو چٹ کرگئیں ۔۔قمل جوئیں ،چیچڑ،سسری حشرات اور کیڑے مکوڑوں کی تعبیر ہے جو ٹڈیوں سے بچی ہوئی غذائی اجناس کوتباہ کرنے پر مامور تھے۔۔۔ضفادع سے مینڈک مراد ہیں جن سے ان کے گھروں اور کھانے پینے کی چیزں بھرگئیں ۔دم اس خون کی تعبیرہے جو ان کے پانیوں میں شامل ہوگیا۔[2] قوم ثمود اور قوم عاد کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿5﴾ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ﴾[3] "پس جہاں تک ثمود کا تعلق ہے تو وہ طَّاغِيَةِ (حد سےبڑھی ہوئی آفت) کے ذریعے ہلاک کردیے گئے اور جہاں تک عاد کاتعلق ہے تو وہ ایک بے قابو طوفانی ہوا سے تباہ کردیئے گئے" ان آیات سے طَّاغِيَةِ سے مراد حد سے بڑھی ہوئی چنگھاڑ اور ریح صَرْصَرٍ بے حد ٹھنڈی اور شدید الصوت ہوا کی تعبیر ہے۔ صَرْصَرٍ کے ساتھ عَاتِيَةٍ کی صفت اس ہوا کی بڑی ہوئی ٹھنڈک اور آواز کو ظاہر کررہی ہے۔[4] قوم عاد کی ہلاکت کےلیے اللہ تعالیٰ نے جو ہوا چلائی،اس کے بارے میں کہ وہ الریح العقیم تھی جس چیز پر سے اس کا گزر ہوتا تھا،اسے گلی ہوئی اور بوسیدہ ہڈیوں کی طرح بنا دیتی تھی۔[5]آواز کی شدت فضائی آلودگی کا باعث بن کر زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خدا کی نافرمان کئی قومیں خداکے اس عذاب کی زد میں آکر ہلاک ہوئیں ۔حبیب نجار کی قوم کے بارے میں فرمایا کہ ان کہ ہلاکت ایک زور دار چنگاڑ کے ذریعے ہوئے۔اس چنگھاڑ سے وہ بجھ کررہ گئے۔[6] قیامت برپا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے پر مامور فرمایا ہے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّـهُ ﴾[7] "اورصور میں پھونکاجائے گا تو ہر وہ ذی روح چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے،بےہوش ہوکرموت کی آغوش میں چلی جائے گی،سوائے اسکے جسے اللہ چاہے۔" اس آیت کریمہ میں قیامت کے دن صور میں پھونکے جانے کا ذکرآیا ہے ۔صُور ایک قسم کا سینگ ہے۔جس میں حضرت اسرافیل علیہ السلام پھونکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"حضرت اسرافیل علیہ السلام صور کو منہ میں لے کراپنی گردن کو جھکائے ہوتے انتظار کررہے ہیں کہ کب انہیں اس میں پھونکنے کاحکم ملتا ہے ۔[8] دھواں :دھواں بھی فضائی آلودگی کاباعث بنتاہے اور اس کی شدت عذاب الٰہی بن جاتی ہے۔
[1] ابن کثیر حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل دمشقی:تفسیر القرآن العظیم ،1994ء ریاض دارالسلام ج2 ص320۔ [2] جلال الدین تفسیر جلالین ص167 [3] القرآن ،69،5،6 [4] پانی پتی تفسیر مظہری ج10 ص48،49 [5] القرآن51،41،42۔ [6] القرآن 36،29 [7] القرآن 39:68 [8] ابن کثیر :تفسیر القرآن العظیم ج2 ص197