کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 20
اہتمام کیا جائے۔پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کی رعایت دی جائے۔ اسلام کی اس تعلیم کو قرآن حکیم میں خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔[1] پانی کو اللہ تعالیٰ نے نجاست اور آلودگی سے طہارت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ بنایا ہے۔اس لیے قرآن حکیم میں پانی کی اس صفت کابطور خاص ذکر کیا گیا۔فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا﴾[2] "اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا جو خود طہارت والاہے" اس آیت کریمہ میں پانی کے جس خاص وصف طہور کا ذکر کیا گیا ہے ،فقہاء نے اس سے یہ استنباط کیاہے کہ حکمی نجاستوں سے ازالہ صرف آب خالص ہی سے ممکن ہے۔[3] ماحولیاتی آلودگی: آلودہ پانی اور ہوا:کسی جاندار یا انسان کے اردگرد کی مادی چیزیں یا لوازمات جو اس جاندار یا انسان کی زندگی اورنشو نما پر اثر انداز ہوں ،وہ اس کا ماحول(Environment) بناتی ہیں ۔[4] انسانی ماحول میں پانی اور ہوا کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ انسانی زندگی ان کے بغیرناممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی آلودگی انسان کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔قرآن حکیم میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں سرکش اور نافرمان قوموں کی گوشمالی اور سزا کے لیے آلودہ پانی اور ہوا کا ذکر موجود ہے۔فرمان الٰہی ہے:﴿ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ ﴿133﴾ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ۖ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿134﴾ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ﴾ [5] "پس ہم نے ان پر طوفان ،ٹڈیاں ،جوئیں ،مینڈک اور خون،تفصیلی نشانیوں کے طور پر بھیجے تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے اور جب ان پر کوئی آفت آتی تو کہتے کہ اے موسی علیہ السلام ! اس عہد کے حوالے سے جواس نے تم سے کررکھاہے تم ا پنے رب سے ہمارے حق میں دعا کرو۔اگر تو نے ہم سے یہ آفت دور کردی تو ہم تمہاری بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کوتیرے ہمراہ بھیج دیں گے۔پھر جب ہم آفت کو کچھ مدت کے لیے،جن تک وہ پہنچنے والے ہوتے دور کردیتے تو دفعتاً وہ عہد توڑ دیتے" ان آیات میں قوم فرعون کو جھنجھوڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جن پانچ آفتوں کا ذکر کیا ہے ان میں طوفان،ٹڈیاں ،جوئیں ،مینڈک اور خون شامل ہیں ۔عربی زبان میں طوفان ہر شدید اور ملک گیر حادثہ(ابتلاء) کو کہا جاتاہے۔یہاں اس سے مراد آتشیں ژالہ باری ہے۔جس کاذکر تورات میں آیا ہے۔[6] ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بقول طوفان سے مراد کھیتی اور پھلوں کو ڈبو دینے والی بارشیں ہیں ۔مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے اس
[1] القرآن،5،6 [2] القرآن ،25:48 [3] دریا آبادی ،تفسیر ماجدی ص 737 [4] ہاکنز جائس ایم ورابرٹ ایلن:آکسفورڈ انسائیکلو پیڈک ڈکثنری 1991ء لندن آکسفورڈ ص478 [5] القرآن 7،133،135 [6] دریا آبادی تفسیر ماجدی ص353