کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 19
ہے۔یعنی ارتعاش اور اضطراب۔[1]اہل ایمان کو ہر دو طرح کی نجاست اور آلودگی سے دامن بچانے اور ان سے طہارت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ [2]"بے شک اللہ تعالیٰ(گناہوں سے) توبہ کرنے والوں کو پسند کرتاہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کر تاہے۔" اس آیت کریمہ میں توبہ اور تطہیر کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔توبہ گناہوں سے اپنے باطن کو پاک کرنے کا نام ہے۔جب کہ تطہیر ظاہری نجاستوں اور گندگیوں سے اپنے ظاہر کو پاک کرنے سے عبارت ہے۔[3] (2) آلائش اور گندگی کو قرآن میں اذی سے بھی تعبیرکیا گیا ہے کیونکہ اس سے انسان کو اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کہہ دیجئے کہ وہ "اذی"(الائش اور گندگی) ہے۔پس تم عورتوں سے زمانہ حیض میں الگ رہو"[4] اس آیت کریمہ میں اذی کنایہ ہے آلائش سے اور اس لفظ کا اطلاق ناپسندیدہ قول پر بھی ہوتاہے۔[5]گندگی اور آلائش سے پاکیزگی اور طہارت اختیار کرناقرآنی تعلیمات کی روح ہے۔اور اسے صرف حیض سے مخوص کرنا درست نہیں ۔حیض طب قدیم اور جدید ہر دو کے نزدیک ایک آلودگی ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے زمانہ حیض میں عورت سے الگ رہنے(ہم بستری نہ کرنے) کا حکم دیا ہے۔اسلام طہارت ،صفائی اور نظافت کا مذہب ہے اس لئے وہ ہر قسم کی آلودگی اور نجاست سے اپنے ماننے والوں کوالگ رہنے کی تلقین کرتاہے۔[6] آلودگی کواذی سے تعبیر کرنا اس کی مضرت رسانی کو واضح کرنے کے لیے ہے۔کیونکہ لغت میں اذی سے مراد وہ ضرر ہوتا ہے جو کسی جاندار کی روح یاجسم کو پہنچے۔خواہ وہ ضرر دنیاوی نوعیت کا ہو یا اخروی نوعیت کاہو۔[7] (3) عربی لغت میں نجاست اور گندگی کے لیے قذر کالفظ بھی استعمال کیاجاتا ہے۔قرآن حکیم میں اسکی تعبیر رجس اذی اور نجس کی اصطلاحات سے کی گئی ہے۔قذر کامتضاد طہارت اور نظافت ہے۔نظافت کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہوتاہے۔جب حالت قذر کو زائل کردیاجائے۔طہارت اصل میں دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک حقیقی طہارت جو ظاہری گندگی اور آلودگی کو دور کرنے سے میسر آتی ہے۔دوسری حکمی طہارت جو حدث سے پاکیزگی کا مطالبہ کرتی ہے۔حدث وہ پلیدی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی۔مگر شریعت کے حکم سے ثابت ہوتی ہے۔مثلا بے وضو ہونا یا حالت جنابت میں ہونے کے باعث غسل کا محتاج ہوتا۔حدث سے طہارت حاصل کرنے کے لیے وضوء غسل یاتمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔[8] اسلام کی طہارت پسندی اس بات کاتقاضا کرتی ہے ۔کہ نماز جیسی عبادت کے لیے وضو کو شرط قرار دیا جائے جو طہارت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اگر غسل کی ضرورت ہوتو اس کا
[1] آلوسی،روح المعانی ج11 ص194 [2] القرآن ،2/222 [3] اصلاحی تدبرالقرآن ج1 ص194 [4] القرآن 2/225 [5] شوکانی محمد بن علی فتح القدیر ،لبنان(بیروت) واحیاالتراث العربی ج1 ص225 [6] عبدالماجد دریا آبادی تفسیر ماجدی کراچی تاج کمپنی ،ص 89 [7] اصفہانی المفردات ،ص15 [8] الکاسانی علاؤالدین ابو بکر بن مسعود ،بدائع الصنائع،1400ھ،کراچی ایچ ایم سعید کمپنی ج1 ص3