کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 15
دوسرا سنت قائمہ کا اور تیسرا انصاف کے ساتھ میراث کی تقسیم کا ہے۔" اسلامی ریاست کے لئے میراث کے ان قواعد اور احکام پر عمل درآمد کرانا بہت ضروری ہے۔خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 18 ہجری میں شام کا ایک سفر اس غرض سے اختیار کیا کہ وہاں پر طاعون عمواس میں جو لوگ وفات پاگئے ہیں ۔ان کے ترکے کومیراث شرعی کے طور پر تقسیم کیا جاسکے،ہمارے محدثین اور فقہاء نے اس علم پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں ۔اور اس ضمن میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ،ان پر فتاویٰ اور اجتہاد کی صورت میں ایک عدیم المثال علم کی بنیاد رکھی ہے۔ان اُمور سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تمدن کی نشو نما کے لئے احکام میراث کا علم اور اس پر عمل ایک ناگزیر صورت ہے ۔اسلامی قانون وراثت کی بہت سی خصوصیات اور امتیازات ہیں جن کا واضح نقشہ اس سے پہلے تاریخ عالم میں دیکھائی نہیں دیتا۔ہم ان امتیازات کا بھی مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں : بعثت اسلام سے قبل مختلف تہذیبوں اور اور معاشرے میں عورت کے وجود کو ناپاک اور کم تر تصور کیاجاتاتھا۔میراث میں اس کا حصہ تو کجا بعض معاشروں میں وہ خود ترکہ کی ایک شے تصور کی جاتی تھی۔بزرگوں کے انتقال کے وقت خاندانی عورتوں کو بھی تقسیم کر لیاجاتا تھا اور اسے وہ تہذیب یاتمدن کے لئے کوئی معیوب امر تصور نہیں کرتے تھے۔اسلام نے نہ صرف عورت کو ہر حالت میں ترکے کا حقدار ٹھہرایا ہے۔بلکہ ایک امتیاز یہ بھی عطا کیا کہ احکام میراث میں اس کے حصے کاتعین کرکے پھر دوسروں کے حصص کی بات کی گئی ہے۔البتہ عورتوں کی مختلف معاشرتی حیثیتوں کے اعتبار سے ترکے میں ان کی نسبت مختلف رکھی گئی ہے جس میں حکمت اسلامی کی معاشرتی تعلیم کا ایک حسن نمایاں ہوتاہے۔ اسلام سے قبل مرنے و الے کے ترکے جائیداد میں غیر مستحقین کو بھی وارث تصور کیا جاتا تھا جس سے حقیقی ورثا محروم ہوجاتےتھے۔اسلام نے غیر وارثوں کے لیے ایک تہائی کی وصیت کو تو برقرار رکھا ہےمگر بقیہ جائیداد کے لئے کڑے شرعی قواعد مقرر کردیے ہیں جن کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں ۔اس طرح سے متبنیٰ اولاد اور احباب کے لیے وصیت اورہبہ کی شکل تو قائم کی گئی ہے مگر انہیں مستقل میراث کے حقدار نہیں ٹھہرایا گیاہے۔ بعض معاشروں ،ممالک اور قوموں میں اولاد میں سے بڑے بیٹے کاحق تو تسلیم کیا گیاہے مگر دوسرے اعزاء کو اس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔اس سے خانگی اور عائلی زندگی میں کئی نوعیت کی قباحتیں پیداہوتی ہیں ۔اسلام نے تو رحم مادر میں مووجود بچے کے ورثے کا حق بھی محفوظ کردیاہے۔اس سے احترام آدم کی بہترین پیدا کی گئی ہے۔قواعد میراث میں چھوٹے بڑے مرد و عورت حتیٰ کہ مفقود الخبر،ولد الزنا،ولد الملاعنہ اورخنثیٰ کی میراث کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔