کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 14
بیٹے اور منہ بولے باپ کی وراثت کا تصور بھی ختم کردیا۔اب زندگی میں تو وقف بیع یا ہبہ کے تحت کوئی جائیداد غیر وارث کودی جاسکتی ہے۔مگر موت کے بعد ترکے میں حقیقی وارثوں کے علاوہ کوئی دوسرا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔سورہ مائدہ کی آیت106 اور 108 میں وصیت کرنے والے کے لیے شہادت کا ایک معیار مقرر کیا گیا جس کے مطابق مسلمانوں کی جماعت میں سے دو صاحب عدل گواہ بنائے جائیں ۔البتہ حالت سفر میں وصیت کے طور پر اگردو گواہ مسلمان موجود نہ ہوں تو غیر مسلموں سے دو گواہ لینے کی اجازت دی گئی ۔احکام میراث کی یہ قرآنی تعلیمات 9ہجری میں سورہ نساء کی آیت 176 کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں ۔جس میں کلالہ کے مسئلے پروحی کے ذریعہ پوری ہدایت دی گئی: ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚفَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗوَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿176﴾...النساء "لوگ تم سے کلالہ کے متعلق فتوی پوچھتے ہیں ۔کہواللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا ۔اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوگی اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہوگا۔اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کر تاہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتاہے۔" واضح رہے کہ میراث کی اصطلاح میں کلالہ سے مراد وہ شخص ہے جو ایک طرف لاولد ہو اور دوسری طرف اس کے باپ دادا بھی زندہ نہ ہوں ۔ اسلامی قانون وراثت کی چند خصوصیات:۔ ابھی تک احکام میراث کے سلسلے میں ہم نے قرآن مجید کے جن احکامات کی تفصیل پیش کی ہے ان کے تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے تمدنی استحکام اور عائلی اور خاندانی نظام کی نشوونما کے لیے یہ ایسے ابدی اور فطری احکام میراث پیش کر دیے ہیں ۔جن میں ان تمام ناانصافیوں کا ازالہ کردیاگیا ہے جو اس سے قبل انسانی معاشرے میں پائے جاتے تھے۔وراثت کا یہ علم اس قدر اہمیت اور فضیلت رکھتاہے کہ شریعت میں اسے علم الفرائض کا ایک مستقل نام دیا گیاہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم کو سیکھنے اور سکھانے کی تلقین کی ہے اور اسے نصف علم کے برابر قرار دیاگیاہے۔۔۔۔۔ سنن ابی داود کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "علم تین ہیں اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے:ان میں پہلا آیات محکمات کا علم ہے،