کتاب: محدث شمارہ 234 - صفحہ 10
بھی کردیاگیا۔نیز و صیت میں ایک تہائی کی قیدلگاکر صلہ رحمی کے جذبات کو بھی فروغ دیا گیا۔مگر ایک تہائی جائیداد یا ترکے میں وصیت کی یہ گنجائش وارثوں کے علاوہ دوسرے اعزاء واقربا ء اور یتیموں اور مسکینوں وغیرہ کے لیے پیدا کی گئی جن کے حصص ذوی الفروض یا مقررہ حصہ دارں کے ذیل میں نہیں آتے ہیں ۔اہل سنت اسی ضابطہ وراثت پر عمل پیرا ہیں مگر اہل تشیع کےہاں ایک تہائی وصیت کے اس ضابطے میں ذو الفروض یا مقررہ حصہ داروں کو بھی شامل تصور کیا گیاہے ۔وصیت کے ابتدائی احکام کے سلسلے میں سورۃ البقرۃ کے ایک دوسرے مقام پر بھی ایک تعلیم ملتی ہے مگر یہ تلقین بھی مستقل ضابطہ وراثت کے احکامات سے قبل کی ہے جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿240﴾...البقرة " جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وه وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائده اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے، ہاں اگر وه خود نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناه نہیں جو وه اپنے لئے اچھائی سے کریں ، اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے " قانون وراثت کے چند ضابطے: سورۃ البقرہ میں وصیت کے یہ ابتدائی احکامات اس ظلم وزیادتی کے فوری مداوا کے لئے تھے جن کا رواج جاہلیت میں ایک عمومی حیثیت اختیار کرچکا تھا مگر مستقل ضابطہ وراثت کی وضاحت کے بعد وصیت کے اس حکم کو کئی ایک شرائط کے ساتھ پابند کردیاگیا۔جس کی تفصیلات ہمیں ذخیرہ حدیث اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہیں ۔ اولاً یہ کہ وصیت تحریری شکل میں ہونی چاہیے۔اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ : "جو شخص وصیت کرنا چاہتاہے تو اسے دوراتیں بھی اس حالت میں نہیں گزارنی چاہیں کہ اس کے پاس لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو"(صحیح مسلم :کتاب الوصیۃ) ثانیاً یہ کہ وصیت کی حد ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ مال میں نہیں ہوسکتی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لائےتو انہوں نے اپنے سارے مال کی وصیت کرنے کاعندیہ ظاہر کیا توطویل گفتگو کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک تہائی مال کی حد تک وصیت کرنے کی تلقین کی۔ایک دوسرے روایت میں ان سے یہ کہاگیا کہ" ایک تہائی کی وصیت کرو اور یہ بھی بہت ہے۔"(سنن ترمذی :کتاب الوصایا)