کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 63
تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ دینی علوم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست سے بھی پوری طرح باخبر تھے۔ برصغیر کی تمام سیاسی و غیر سیاسی تحریکات سے پوری طرح باخبر تھے اور ہر تحریک کے قیام کے پس منظر سے واقف تھے اور اس کے ساتھ ہر تحریک کے بارے میں اپنی ایک متوازن و معتدل رائے رکھتے تھے۔ شروع سے ہی مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور آخر دم تک اس جماعت کے ساتھ ہی وابستہ رہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل تحریکِ استخلاصِ وطن میں نمایاں خدمت انجام دیں اور اسیر زنداں بھی رہے۔ 1953ء کی قادیانی تحریک اور بعد میں تحریکِ نفاذ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور جیل بھی کاٹی۔
حافظ عبدالقادر روپڑی صاحب اپنے مسلکِ اہلحدیث میں بہت مضبوط تھے۔ ان کی وعظ و تبلیغ سے بے شمار لوگوں نے مسلک اہل حدیث قبول کیا۔ مشہور دیوبندی عالم مولانا عبدالرحمٰن مرحوم فاضل دیوبند ساکن فیصل آباد نے 1963ء میں حافظ صاحب کی تقریر سن کر مسلکِ اہلحدیث قبول کیا۔
مولانا عبدالرحمٰن مرحوم نے تو اس کا اعتراف اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ یہ مضمون بعنوانِ ’’تلاشِ حق – میں اہل حدیث کیوں ہوا‘‘ مولانا عبدالرحمان نیز راجو والوی نے اپنی کتاب ’’حقانیت مسلکِ اہلحدیث‘‘ میں صفحہ 468 تا 376 درج کیا ہے۔
حافظ صاحب کے ساتھ میرا نیاز مندانہ تعلق تھا۔ مرحوم سے جب بھی ملاقات ہوتی ہمیشہ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ بڑی خندہ پیشانی سے ملتے۔ خوب خاطر تواضع کرتے۔ میں نے علماءِ اہلحدیث میں ان جیسا فیاض اور مہمان نواز عالم نہیں دیکھا۔
حافظ صاحب مرحوم ملتِ بیضا کی شمع تھے۔ جماعتِ اہلحدیث کے درخشندہ ستارہ تھے۔ ان کے رخصت ہونے سے ایک روشن چراغ گل ہو گیا اور اندھیرا بڑھ گیا۔ ان کے دم قدم سے دنیائے علم و ادب میں جو رونق تھی، وہ سونی پڑ گئی۔ جامع القدس لاہور میں جو علمی شمع روشن ہوتی تھی وہ ان شاء اللہ العزیز اب بھی روشن رہے گی لیکن اس طرح کی محفل آراستہ نہیں ہو گی جو ان کی شرکت سے آراستہ ہوتی تھی۔ ان کے انتقال سے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ حافظ صاحب ایک قیمتی متاع تھے۔ جسے موت نے ہم سے چھین لیا ہے۔ ان کے انتقال سے جماعت اہلحدیث کو خصوصاً اور امتِ مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حافظ صاحب کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کا مقام جنت الفردوس میں بنائے۔ (آمین)
داغِ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے