کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 62
علمائے کرام میں ہوتا ہے جن پر بجا طور پر فخر ہو سکتا ہے۔ حافظ صاحب بڑے خوش بیان مقرر و خطیب تھے اور اس کے ساتھ بہت بڑے مناظر بھی تھے۔ عیسائیوں، آریوں، قادیانیوں، ملحدوں، منکرین حدیث، شیعہ اور جامد مقلدین سے بے شمار مناظرے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر مناظرہ میں کامیاب و کامران رہے۔
حافظ عبدالقادر روپڑی صاحب کی شخصیت اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ صفت ہے جس کی مثال اس زمانے میں ملنی مشکل ہے۔ آپ ایک جید عالم دین تھے۔ سحر بیان واعظ اور مبلغ بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی فہم و بصیرت عطا کی تھی۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر معمولی عشق تھا اور حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ راقم جب بھی ان سے ملاقات کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور دعائیں دیتے اور فرماتے کہ آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ دورانِ گفتگو جب کبھی مسٹر پرویز (منکرِ حدیث) کا ذکر آ جاتا تو حافظ صاحب جلال میں آ جاتے اور فرماتے:
’’اس شخص نے اپنے رسالہ کا نام ’’طلوعِ اسلام‘‘ رکھا ہے۔ حقیقت میں یہ ’’غروبِ اسلام‘‘ ہے۔ اس شخص نے دین اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کا جو عقیدہ ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور یہ شخص حدیث نبوی کو تاریخ کا درجہ دیتا ہے (العیاذ باللہ) – مگر علمائے اہلحدیث نے اس کی خوب خبر لی ہے اور لیتے رہتے ہیں اور اس کی خرافات کا جواب دیا جاتا ہے۔
اس کے پیشرو مولوی عبداللہ چکڑالوی، مولوی احمد دین امرتسری، مولوی حشمت علی لاہوری، مستری محمد رمضان گوجرانوالہ اور مولوی محمد اسلم جے راج پوری نے فتنہ انکار حدیث کھڑا کیا۔ علمائے اہلحدیث خصوصاً مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا ابو القاسم بنارسی، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا محمد بن ابراہیم جوناگڑھی وغیرہم نے ان سے تحریری و تقریری مناظرے کئے اور ان کی خرافات کے جوابات بھی دئیے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعی و کوشش کو قبول فرمائے۔
میں جب ’’طلوع اسلام‘‘ میں کوئی مضمون حدیث کے خلاف دیکھتا ہوں تو میرا خون کھول جاتا ہے اور ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ میں اس کا جواب دیتا ہوں اور دوسرے اہل علم و قلم کو بھی اس کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع علماء کا اوّلین فریضہ ہے۔ اس کی حفاظت و صیانت سے علماءِ اسلام کو غافل نہیں ہونا چاہیے‘‘
حافظ صاحب قدرت کی طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ قوتِ حافظہ قوی تھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا۔ تفسیر، حدیث اور علم کلام پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔