کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 61
تھے۔ زہدواتقاء کے پیکر، استغناء و للہیت کی تصویر، تواضع و فروتنی کے قلزم، علوم اسلامیہ کے بحر ذخار، مجتہد العصر، مفتی أعظم، مفسر قرآن، محدثِ دوراں اور علم کا مجمع البحرین تھے۔ مولانا حافظ محمد حسین امرتسری (والد حافظ عبدالرحمٰن مدنی) یہ بھی مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کے سگے چچا تھے۔ جو روپڑی خاندان کے گل سرسبد، خطیب و مقرر، جید عالم دین، محقق، مؤرّخ، اعلیٰ پایہ کے معلم اور مدرّس، اصول و قواعد کے عالم بے مثیل، علم و فضل کا پیکر، اور زہد و اتقاء کا نمونہ تھے۔ پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ، حافظ ثناء اللہ مدنی، حافظ عبدالرحمٰن مدنی اور دیگر بہت سے ممتاز علماء آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی مرحوم مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کے بڑے بھائی تھے۔ شعلہ نوا خطیب و مقرر، مشہور واعظ، مبلغ، مناظر اور جید عالم دین تھے۔ ان کا وعظ بڑا مؤثر ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سخن داودی عطا کیا ہوا تھا۔ قرآنِ مجید بڑی خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قرآن اب نازل ہو رہا ہے۔ آپ کا اعلیٰ خلق اکثر لوگوں کو بہت متاثر کیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے اور علیین میں بلند مقام و مرتبہ عطا فرمائے۔ مولانا حافظ عبدالرحمٰن کمیرپوری (محدث روپڑی رحمہ اللہ کے بھائی)، مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی، مولانا حافظ عبدالوحید، حافظ حسن مدنی، مولانا حافط عبدالغفار روپڑی اور مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی بقیدِ حیات ہیں اور دین اسلام کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور دین اسلام کی خدمت کی زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین! مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی 85 سال کی عمر میں 27 شعبان المعظم 1420ھ، 6 دسمبر 1999ء کو لاہور میں طویل عرصہ کی علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! حافظ صاحب نے دینی علوم کی تحصیل اپنے چچاؤں مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور حافظ محمد حسین امرتسری رحمہ اللہ سے کی۔ حافظ صاحب خداداد ذہانت اور اعلیٰ صلاحیت کے مالک تھے۔ طبیعت میں اعتدال، رائے میں توازن، فکر میں گہرائی اور معاملات میں دور اندیشی آپ کا طرہ امتیاز تھی۔ حافظ صاحب صبر و استقامت کا پہاڑ، حق گوئی و بیباکی میں بے مثال، اور اپنے عزم و ارادہ کے انتہائی پختہ، مردِ آہن تھے اور اس کے ساتھ اپنی وضع کے پابند، اخلاق و شرافت کا مجسمہ، خلوص و دیانت کا مرقع اور علم و حلم کا پیکر تھے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے ملی سیاست اور دینی قیادت کو جو عظیم زخم لگا ہے اور عظیم خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ان کے انتقال سے علم و خلوص کا ایک دور ختم ہو گیا۔ حافظ صاحب کی زندگی گوناگوں مشاغل سے معمور رہی۔ ان کا شمار جماعت اہل حدیث کے ان