کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 6
اساتذہ تقابل اَدیان کی مشق کی غرض سے انہیں سبقاً سبقاً پڑھاتے ہیں۔ حافظ صاحب اس فن میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ آپ نے غیر مسلموں سے بھی مناظرے کئے اور مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے بھی اس فن کی داد وصول کی۔ آپ کی ان مناظرانہ سرگرمیوں کے باعث آپ کو رئیس المناظرین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل دہلی میں آپ کا ایک یادگار مناظرہ آریہ سماجیوں سے ہوا۔ جس میں آریہ سماجی مناظر نے استفسار کیا کہ قرآن سے ثابت کیجئے ’’اللہ ہندو ہے یا مسلمان -؟‘‘ اس سوال کے جواب میں حافظ صاحب نے سورہ بقرہ کی وہ آیات تلاوت کیں جن میں ایک گائے کو ذبح کرنے کا حکم ہے۔ ان آیات کے ترجمہ سے حافظ صاحب نے استدلال قائم کیا کہ اگر اللہ ہندو ہوتا تو کبھی گائے ذبح کرنے کا حکم نہ دیتا۔ اس جوابِ ناطق سے آریہ سماج میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مناظرہ کے لیے ضروری ہے کہ صاحبِ مناظرہ کا ذہن اَخاذ ہو، اس کا حافظہ مثالی ہو، استحضار علمی ہو، وسیع المطالعہ ہو، ذہانت و فطانت کا بہرہ وافر اُسے ملا ہو، اِستخراجِ مسائل کا سلیقہ رکھتا ہو، طبیعت میں نکتہ سنجی، نکتہ دانی اور نکتہ آفرینی ہو نیز مخاطب کی نفسیات اور معتقدات سے بخوبی شناسائی رکھتا ہو۔ حافظ صاحب میں مذکورہ بالا سب صفات موجود تھیں، اس لیے وہ مخالف مناظر پر چھا جاتے تھے۔ ان معرکوں میں ان کی معاونت کے لیے محدث روپڑی رحمہ اللہ کے علاوہ ان کے چچا حافظ محمد حسین روپڑی یا ان کے بھائی حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی رحمہ اللہ بھی موجود ہوتے۔ حافظ صاحب نے غیر مسلموں میں سے یہ مناظرے، عیسائیوں، ہندوؤں، آریہ سماجیوں اور قادیانیوں کے ساتھ کئے۔ مسلم فرقوں میں سے ان کے زیادہ تر مناظرے بریلوی، دیوبندی، چکڑالوی، پرویزی اور شیعہ حضرات کے ساتھ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان پر یہ خصوصی کرم تھا کہ زندگی بھر تمام تر مناظروں میں ان کو سبقت حاصل رہی۔ کاش کوئی ان تمام مناظروں کی تفصیلات کو جمع کر دے تو یہ تقابل اَدیان کے مطالعہ کے لیے بہترین علمی وسیلہ ہو۔ حافظ صاحب تحریکِ ختم نبوت کے ہمیشہ ہراوّل دستے میں شامل رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد بھی کی۔ قادیانیت کے خلاف حافظ صاحب ایک شمشیر برہنہ تھے۔ ختم نبوت کے مسئلہ کو بیان کرنے میں انہیں غیر معمولی دسترس تھی۔ 1953ء کی تحریکِ ختم نبوت ہو یا قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کی آئینی جدوجہد، وہ ہر مرحلے میں پیش پیش رہے۔ امتِ مسلمہ کو اس فتنے کی شر انگیزیوں سے باخبر کرنے کے لیے انہوں نے قریہ قریہ تقاریر کیں۔ اس ضمن میں ان کا شمار اکابرین ختم نبوت میں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان تاریخ ساز مساعی کو قبول فرمائے اور ان کے حسنات میں شمار فرمائے!