کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 59
سارے شاہی خاندان کو عورت، مرد اور بچوں سمیت دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ وزیراعظم نوری السعید کی برہنہ لاش بغداد کی سڑکوں پر گھسیٹی جاتی رہی۔
شام میں مسلسل انقلابات آتے رہے۔ ہر چند مہینے بعد ایک نیا انقلاب آ جاتا تھا۔ سوڈان میں پہلا انقلاب جنرل عبود لائے تھے پھر جنرل نمیری انقلاب لائے اور اب جنرل عمر حسن البشیر سوڈان کے فوجی حکمران ہیں۔ سوڈان میں مسلسل فوجی حکومت کے بعد جمہوری حکومت اور جمہوری حکومت کے بعد فوجی حکومت آتی رہی۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی نے شاہ ادریس سنوسی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا وہ گذشتہ 25/30 برس سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اردن کے مرحوم شاہ حسین کا تختہ الٹنے کی بہت کوشش کی گئی مگر ان کی قسمت اچھی تھی۔ وہ سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں بادشاہ بنے تھے۔ 63 برس کی عمر تک بادشاہت کرتے رہے۔ یہاں تک کینسر نے ان کو راہئ ملکِ عدم کیا۔ خلیج کی عرب ریاستوں میں بیٹوں نے باپوں کے تختے اُلٹے۔ سلطنتِ عمان اور قطر میں یہی سانچے پیش آئے۔ الجزائر میں بومدن نے بن یلا کا تختہ الٹ دیا اور بن یلاکو قید کر دیا جہاں وہ بے چارہ اس وقت تک قید رہا جب تک کہ بومدین کا انتقال نہیں ہو گیا۔
20ویں صدی کا یہ المیہ ہے کہ عرب اتحاد کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود کبھی متحد نہ ہو سکے۔ انہوں نے عرب اتحاد کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ایک عرب لیگ بھی بنائی اور متعدد عرب سربراہی کانفرنسیں بھی کیں، لیکن عرب اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ بعد ازاں کویت پر عراق کے حملے اور قبضے نے تو عرب اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ 20ویں صدی کی ابتداء میں جو عرب قوم پرستی کی تحریک اٹھی تھی اور جو نہر سویز کو قومیانے کے موقع پر اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی، اب اپنی موت آپ مر چکی ہے۔ اس کے تابوت میں آخری کیل عراق نے کویت پر قبضہ کر کے ٹھونک دیا۔
20ویں صدی میں عربوں میں سوشلزم کا بھی بہت زور شور رہا لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے اور چین کے مرتد ہو جانے کے بعد عرب سوشلزم بھی دم توڑ گیا۔ 20ویں صدی نے پہلی خانہ جنگی اردن میں، دوسری خانہ جنگی لبنان میں اور تیسری خانہ جنگی الجزائر میں دیکھی۔ 20ویں صدی میں متعدد عرب ملک تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ہوئے جن میں سعودی عرب، کویت، ابو ظہبی، دبئی، بحرین، سلطنت عمان، لیبیا اور الجزائر شامل ہیں۔ تیل کی دولت نے عرب ملکوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں دنیا کی دلچسپی بہت بڑھ گئی۔ عرب مارکیٹوں کے حصول کے لئے بڑے صنعتی ملک دوڑ پڑے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ عرب ملکوں کی جو لیڈر شپ بچاس کی دہائی میں مصر کے پاس تھی وہ اب تیل پیدا کرنے والے ملکوں بالخصوص سعودی عرب کی طرف منتقل ہو چکی ہے۔