کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 58
کے بعد سلطنتِ عثمانیہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی اور اس کے زیر نگیں تمام عرب ملک ترکوں کے غلبے سے آزاد ہو گئے۔ لیکن یہ آزادی عربوں کو اس لحاظ سے مہنگی پڑی کہ عالم عرب متحد نہیں رہ سکا اور چھوٹے چھوٹے ملکوں لبنان، سوریا، عراق، اُردن اور فلسطین میں بٹ گیا اور پھر یہ سارے ملک فرانس اور برطانیہ کے کنٹرول میں چلے گئے۔ 20ویں صدی کے وسط تک یا دوسری جنگ عظیم کی ابتدا تک سارے عالم عرب میں صرف دو ہی آزاد ملک تھے۔ مملکتِ سعودی عرب اور شمالی یمن۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا مراکش، الجزائر اور تیونس پر فرانس کی حکومت تھی، لیبیا پر اٹلی کا قبضہ تھا، مصر اور عراق پر برطانیہ کا اقتدار تھا، شرقِ اردن اور فلسطین پر برطانیہ کا کنٹرول تھا، سوریا اور لبنان فرانس کے پاس تھے، سوڈان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور خلیج کی عرب ریاستیں وائسرائے ہند کے کنٹرول میں تھیں۔ 20 ویں صدی عالم عرب کے لئے اس لحاظ سے بڑی المناک ثابت ہوئی کہ 1948ء میں اسرائیل کا خنجر عالم عرب کے سینے میں پیوست کر دیا گیا۔ 1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی۔ 1967ء کو دوسری عرب اسرائیل جنگ میں نہ صرف یہ کہ عربوں کو شکست ہوئی بلکہ ان کے ہاتھ سے بہت بڑا علاقہ نکل گیا۔ اسرائیل نے مصر سے سینا چھین لیا۔ شام سے گولان چھین لیا۔ اردن سے سارا مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس چھین لیا۔ 1970ء میں پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی مگر باوجود شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے کے عرب اسرائیل سے اپنا کوئی علاقہ واپس نہ لے سکے۔ بالآخر صدر انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل سے مصالحت کر کے اپنا مقبوضہ علاقہ آزاد کرایا۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی اردن نے بھی اسرائیل سے مصالحت کر کے اپنے بعض مقبوضہ علاقے آزاد کرائے اور اب صدر یاسر عرفات اسرائیل سے مذاکرات کر کے مغربی کنارے کے لئے نیم آزادی اور داخلی خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر شام گولان کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ اسرائیل گولان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو رہا۔ لگتا یہی ہے کہ 20 ویں صدی کا آخری سورج بھی غروب ہو جائے گا اور گولان اسرائیل کے پاس رہے گا۔ 20ویں صدی عرب ملکوں میں انقلابات کی صدی تھی۔ ابتداء مصر سے ہوئی جہاں جنرل نجیب نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا۔ شاہ فاروق روم چلے گئے۔ پھر جمال عبدالناصر نے جنرل نجیب کا تختہ الٹ دیا اور انہیں اپنے گھر میں نظر بند کر دیا۔ بعد ازاں جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ اس اقدام نے جمال عبدالناصر کو عربوں کا ہیرو بنا دیا۔ برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے کی سزا دینے کے لئے مصر پر حملہ کر دیا مگر امریکہ کی دھمکی پر تینوں ملکوں نے مصر کے خلاف فوجی کارروائی بند کر دی۔ اس واقعے نے جمال عبدالناصر کا قد کاٹھ اور اونچا کر دیا۔ بالآخر جمال عبدالناصر کا بت 1967ء میں پاش پاش ہو گیا۔ مصر کا انقلاب پرامن انقلاب تھا مگر عراق میں جو انقلاب آیا وہ انتہائی خون ریز انقلاب تھا۔