کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 57
عالم اسلام انتخاب : حافظ حسن مدنی
عالم عرب میں انقلاب کی صدی
[جانے والی صدی کا المیہ یہ ہے کہ عالم عرب اتحاد کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود متحد نہ ہو سکا!]
بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا تو شمالی افریقہ سے لے کر ایران تک پھیلا ہوا سارا عالم عرب تین بڑی طاقتوں یعنی فرانس، برطانیہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے زیر نگین تھا۔ مصر پر سلطنتِ عثمانیہ کی حکومت براہِ راست نہیں تھی مگر دستوری طور پر مصر سلطنت عثمانی کا ہی ایک جز تھا۔ الجزائر، تیونس اور مراکش پر فرانس قابض تھا۔ لیبیا اٹلی کے پاس تھا۔ سوڈان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ عراق، شرقِ اردن، فلسطین اور خلیج کی عرب ریاستوں پر بھی برطانوی سامراج کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ لبنان اور شام پر فرانس کا راج تھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کے شکست کھا جانے کے بعد عثمانی مقبوضات یورپی ملکوں کے قبضے میں چلے گئے۔ مصر پر براہِ راست برطانوی حکومت قائم ہو گئی۔ فلسطین کو برطانوی مینڈیٹ میں دے دیا گیا۔
جزیرہ العرب میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک تو اگرچہ ایک عرصہ سے چل رہی تھی تاہم بیسویں صدی کے رُبع اول میں اسے عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آلِ سعود کی مضبوط شخصیت مل گئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے نجد و حجاز اور عسیر کو فتح کر لیا اور دمام سے لے کر تبوک تک جزیرۃ العرب کا بیشتر حصہ المملكة العربية السعودية میں تبدیل ہو گیا۔
سوڈان میں مہدی سوڈانی کی تحریک میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا اور مہدی سوڈانی کی قیادت میں سوڈانیوں اور انگریزوں میں زبردست خونیں جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ بالآخر جنگ عظیم دوم کے بعد انگریز سوڈان کو آزادی دینے پر مجبور ہو گئے۔ لیبیا میں سنوسی تحریک چلی رہی تھی جس کے زیر قیادت اہل لیبیا نے آزادی کی خاطر بیش قیمت قربانیاں دیں۔ بعد ازاں جب جنگِ عظیم دوم میں اٹلی شکست کھا گیا تو اسے لیبیا سے بوریا بستر گول کرنا پڑا۔ الجزائر میں عبدالقادر کی تحریکِ جہاد بھی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ایک داستان تھی تاہم جنگ عظیم دوم کے بعد الجزائریوں نے مسلسل آٹھ سال تک فرانس کے خلاف لڑ کر اور دس لاکھ الجزائریوں کی قربانی دے کر آزادی حاصل کر لی۔
جنگِ عظیم دوم کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ اس کے بعد ایک ایک کر کے تمام عرب ملک آزاد ہو گئے۔ ویسے تو جنگِ عظیم اوّل بھی اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں شکست کھانے