کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 55
قیمت نہ تھی۔ مصر کو مغربی تہذیب کی روشنی میں بدلنا ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اتاترک کی طرح جمال عبدالناصر نے مذہبی جماعتوں بالخصوص اِخوان المسلمون پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ ہزاروں مذہبی راہنماؤں کو قید و بند کی مصیبتوں سے گزرنا پڑا۔ سینکڑوں کو حکومت کے خلاف جذبات بھڑکانے کے جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ایران میں بھی سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی اوّل (۱۹۲۵ء) نے اتاترک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وسیع تر 'اصلاحات' کا آغاز کر دیا۔ رضا شاہ کی اصلاحات کا دائرہ صنعتی ترقی سے لے کر تعلیمی اور معاشرتی میدانوں میں پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے عدالتی نظام کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا۔ ۱۹۲۷ء میں انہوں نے فرانس کا عدالتی نظام اور قانون جاری کیا۔ نئی نسل میں قوم پرستی کی روح بیدار کرنے کے لئے بوائے اسکاؤٹ اور گرل گائیڈ تنظیموں میں نوجوانوں کی شرکت لازمی قرار دی۔ ۱۹۳۰ء سے سکولوں میں دینیات کی تعلیم لازمی نہ رہی۔ رضا شاہ نے ۱۹۲۸ء میں مشرقی لباس کی ممانعت کرکے مذہبی اثر و نفوذ پر کاری ضر ب لگائی، ترکی ٹوپی اور پگڑی کی جگہ یورپین ہیٹ کو لازمی قرار دیا۔ شاہ نے عورتوں میں آزادی اور بیداری پیدا کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیا رکئے۔ انہوں نے تنسیخ زمینداری، مالکانِ اراضی کے حقوقِ ملکیت ختم کرنے، عورتوں کو حق رائے دہندگی اور منتخب ہوسکنے کے حق کو دستوری و قانونی شکل دی۔ شاہ نے فارسی زبان کا رسم الخط تو برقرار رکھا البتہ فارسی کو عربی زبان کے اثرات سے پاک کرنے کے لئے ادبی مجلس قائم کی۔ قدیم عربی تاریخوں میں موجود نام فارس کو تبدیل کرکے ایران رکھا۔ شاہ نے اسلامی تہذیب کی بجائے آرین تہذیب کے اجرا کے لئے اقدامات کئے۔ایران کی ان ''اصلاحات'' پر واضح طور پر اتاترک ازم کی چھاپ تھی۔ (The Middle East in world Affairs by, Prof. George Lenczowski) تیونس نے ۱۹۵۷ء میں آزادی حاصل کی۔ اس کے پہلے صدر الحبیب بورقیبہ نے ملک کو کمال اصلاحات اور سیکولر ازم کی راہ پر گامزن کر دیا۔ اس نے فرانسیسی ثقافت کے مطابق جدید تیونس کی تشکیل کااعلان کیا ۔نئے عائلی قوانین کا اجراء کرتے ہوئے تعددِ ازدواج کی آزادی اور شوہر کے بیوی کو طلاق دینے کے حق پر پابندی عائد کردیں ۔ عورتوں پر ملازمتوں کے دروازے کھول دیئے۔ انہیں رائے دہی اور مجالس قانون ساز کا رکن بننے کے حقوق دیئے۔ مخلوط مجالس کو فروغ دیا۔ اسلامی اوقافِ عامہ ختم کردیئے گئے۔ تیونس کے لئے نیا قانون ''کوڈ آف پرسنل لائ'' منظور کر کے نافذ کردیا گیا۔ یہ کوڈ روایتی اسلامی قانون سے اتنا ہی مختلف تھا جتنا ترکی کا سیکولر دیوانی قانون۔ تیونسی صدر کے اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کے خلاف بعض توہین آمیز بیانات نے عالم اسلام میں ایک ہنگامہ پیدا کردیا۔