کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 54
پسند معاشرہ اورنئی نئی آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں ترقی و انقلاب کا رمزا (Symbol)اور اہل سیاست اور اہل فکر دونوں کے لئے ایک ہیرو اور آئیڈیل بنا دیا۔ آزاد اسلامی ممالک کے برسراقتدار طبقہ اور سیاسی زعما میں ہمیں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جس نے اتنی مدحود وسطحی ذہنی و علمی صلاحیت اور اخلاقی پستی کے باوجود لوگوں کے دل و دماغ کو اس درجہ مسحور اور اپنی شخصیت اور کارناموں سے اس قدر متاثر کیا ہو اور اپنی تقلید و پیروی کی رکنی زبردست خواہش لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی ہو جتنی کہ کمال اتاترک نے اس عہد آخر میں کی'' (اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، صفحہ ۸۵)
خلافت ِعثمانیہ کو عالم اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی اور خلیفہ کو بے حد عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ خلیفہ کے خلاف بغاوت کا تصور تک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ کمال اتاترک کے ہاتھوں خلافت کی بے حرمتی اور خاتمے نے دیگر اسلامی ممالک میں بھی بادشاہت اور سلطنت کے تصورات کو شدید نقصان پہنچایا۔ مصطفی کمال چونکہ بنیادی طور پر ایک فوجی جرنیل تھا، خلیفہ کے خلاف بغاوت میں اس کی بے نظیر کامیابی نے عالم اسلام کے پرجوش فوجی افسروں کو حکومتوں کا تختہ الٹنے کی راہ دکھائی۔ یہ رجحان اتنا قوی اور خطرناک حد تک بڑھا کہ اسلامی دنیا میں حکومتیں ہمیشہ فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے خطرات سے دوچار رہیں ۔
مصر غیر ملکی ثقافت، مغرب پرستی اور مادی تحریکوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے اتاترک ازم سے بے حد متاثر ہوا۔ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ، نئی نسل کے افراد اور فوج کے افسران کے لئے سیکولر ازم میں کشش پائی جاتی تھی۔ 1952ء میں جمال عبدالناصر اور اس کے ساتھیوں نے شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جن فوجی افسروں نے انقلاب برپا کیا وہ عرصہ دراز سے ''آزاد آفیسران'' "Free Officers" نامی تنظیم بنا کر بالکل اسی طرح خفیہ سرگرمیوں میں مصروف تھے جس طرح کہ کمال اتاترک ''وطن و حریت'' یا اتحاد و ترقی جیسی تنظیموں میں کام کرتے رہے تھے۔
انور سادات نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ''شناخت کا سفر'' (In Search of Identity) میں ''آزاد افسران'' کی خفیہ سرگرمیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اتاترک نے اپنی تحریک کی بنیاد ترکی قوم پرستی پر رکھی تھی، مصر کے انقلابیوں نے عرب قوم پرستی کے ساتھ سوشلزم کا پیوند لگا کر اپنے عزائم کو عملی صورت دی۔ جمال عبدالناصر کے پیش نظر ایک ایسی سوسائٹی کے قیام کا نصب العین تھا جو حریت، سوشلزم اور اتحاد کو زندگی کی اساس اور جدوجہد کے اعلیٰ مقاصد تعین کرتی ہو۔ ان کا نقطہ ٔ نظر ایک ایسے اشتراکی مادّہ پرست انسان کا تھا جس کے نزدیک ایمان، عقیدہ اور دینی اَساس کی کوئی خاص قدر و