کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 53
''عثمانی سلطنت اسلام کے اصول پر قائم ہوئی تھی، اسلام اپنی ساخت او راپنے تصورات کے لحاظ سے عرب ہے، وہ پیدائش سے لے کر موت تک اپنے پیروؤں کی زندگی کی تشکیل کرتا ہے اور ان کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھالتا ہے، وہ ان کی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے او ران کی جرات و اِقدام پسندی میں روڑے اٹکاتا ہے، ریاست کو اسلام کے مسلسل باقی رہنے سے خطرہ لاحق رہے گا'' ( کتاب عرفان اورگا/ ترجمہ سید ابوالحسن علی ندوی)
مصطفی کمال پاشا ترک قوم کو مکمل طور پر یورپی تہذیب کے سانچے میں ڈھال دینا چاہتا تھا۔ وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے ایک ایک نقش کو مٹا دینے پر مصر تھا۔ اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس کو خلاف ِقانون قرار دیا اور انگریزی ہیٹ کا استعمال لازمی کردیا۔
اس نے اس معاملے میں اس قدر شدت اور سختی کا برتاؤ کیا کہ اس کے سوانح نگار عرفان اورگا نے اسے 'ہیٹ کی جنگ' سے تعبیر کیا۔ عرفان اورگا کے مطابق عوام نے سخت ردّ ِعمل کا اظہار کیا۔ فسادات اور بلوے ہوئے ۔مصطفی کمال نے منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کیا، کہیں رحم و رعایت سے کام نہیں لیا گیا۔ مذہبی حلقہ کے افراد جنہوں نے لوگوں میں جوش پیداکیا تھا، پھانسی پر چڑھا دیئے گئے۔ لوگ گرفتار کئے جاتے اور محض اس الزام پر کہ انہوں نے ہیٹ کا مذاق اڑایا ہے، پھانسی پر چڑھا دیئے جاتے ۔ ہیٹ کی جنگ بالآخر جیت لی گئی اور عوام نے شکست تسلیم کر لی۔اس زمانے میں وہ کہاکرتا تھا:
''میں ہی ترکی ہوں ، مجھے شکست دینا ترکوں کو شکست دینا ہے''
اتاترک ازم کے عالم اسلام پراثرات
اتاترک نے سیکولر ازم کے جبری نفاذ کے کامیاب تجربے کے بعد جدید ترکی کو پورے عالم اسلام کے جدید اور آزاد خیال طبقے کے لئے ایک عملی نمونہ کے طور پر پیش کردیا۔ عالم اسلام میں تجدد اور مغربیت کی لہر کو ترکی کے تجربے سے بھرپور تحریک اور قوت ملی۔ اتاترک نے ترکی سے اسلام اور عرب ثقافت کے عناصر کو ختم کر نے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ مغربی نو آبادیاتی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والے مسلمان ممالک میں برسراقتدار آنے والے مغرب زدہ راہنماؤں کے لئے اتاترک کا مقام ایک ہیرو اور قابل تقلید ''ترقی پسند'' راہنما کا تھا۔ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اسلام اور مذہبی طبقہ کے اثرات کو محدود کرنے کے ئے کمالی ہتھکنڈوں سے خوب استفادہ کیا۔ عالم اسلام پر جدید ترکی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں :
''یہ حالات تھے جنہوں نے ترکی کو تحریک جدید کا امام اور اسلامی ملکوں اور حکومتوں کے ''ترقی پسند'' زعماء کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ اور مثال، اور کمال اتاترک کو عالم اسلام کے ترقی